پناہ گزین ٹیچر میلک کیماز کے ساتھ انٹرویو

میلک کیمازترکی سے تعلق رکنے ولا ایک پناہ گزین ہے اور اس وقت ایمسٹرڈیم کے ایک بین الاقوامی ہائی اسکول میں ریاضی کے استادنی کے طور پر کام کرتی ہے۔ اسکول میں وہ MAVO, HAVO اور VWO کےطلباء کو ڈچ میں ریاضی سکھاتی ہے۔

How did you end up in the Netherlands?

آپ نیدرلینڈ میں کیسے آئے؟

میلک اپنے شوہر کے ساتھ ترکی سے بھاگ گئی تہی اور ہالینڈ آنے سے پہلے، وہ تین سال تک عراق میں رہے، جہاں میلک نے ریاضی کے استادنی کے طور پر وظیفہ انجام دیا۔ جب میلک حاملہ ہوئیں، تو وہ جانتی تہی کہ ترکی واپس جانا اور عراق میں رہنا اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ وہ اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ پہلے انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں جا سکتے ہیں۔میلک نے بتایا کہ، “ہمارے پاس کسی یورپی ملک کا ویزا نہیں تھا اور نہ ہی امریکہ جانے کے لیے گرین کارڈ”۔ انٹرنیٹ پر راہ حل کی جانج پرتال میں کچھ وقت گزارنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ہالینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں پناہ گزینوں کو استقبال کیا جاتا ہے، جہاں انہیں مدد مل سکتی ہے اور جہاں وہ آزاد ہیں۔ میلک کاکہنا ہے،”آزادی میرے لیے بہت اہم ہے، اسی لیے ہم نیدرلینڈ آئے”۔ اب میلک اور اس کے شوہر پانچ سال سے ہالینڈ میں رہ رہے ہیں۔ “یہ بہت بڑا قدم تھا، اورشروع میں مجھے آراستہ ہونے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہالینڈ میں رہنے کا کیا مطلب ہے۔ میں ہالند کی زبان نہیں جانتی تھی اور نہ ہی ڈچ ثقافت کے بارے میں کچھ پتہ تھا”۔ میلک اور اس کے شوہر خود ھی ہالینڈ آئے تھےاور ہالینڈ میں ان کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا نہیں رہتاتھا۔

آپ ریاضی کے استاد نی کیوں بنے؟

“جب میں چھوٹی تھی تو ریاضی کی استانی بننا میرا خواب نہیں تھا۔لیکن بعدمیں مجھے انتخاب کرنا تھاکہ میں کس سمت جانا چاہتی ہوں۔ اورمیں جانتی تھی کہ مجھے ریاضی پسند ہے۔ میں ریاضی کو ایک قسم کے کھیل کے طور پر دیکھتی ہوں یا پھرایک پہیلی کی طرح جسے میں حل کرنا چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ، میں یہ بھی جانتی تھی کہ دوسرے لوگوں کو ریاضی پڑھانا مجھےپسند تھا۔ اکثر مجھے اپنے بھائیوں یا اپنے گھر والوں کو چیزیں سمجھانا پڑتی تھیں اور مجھے یہ کرنا پسند تھا۔ اس لیے ریاضی کی استانی بننے کا انتخاب ایک اچھا فیصلہ تھا۔”

آپ کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے؟

جب میلک اور اس کے شوہر نیدرلینڈ آئے تو سب کچھ شروع سے شروع کرنا پڑا۔ انہیں ڈچ زبان یا ثقافت کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا۔ ایک AZC واقع ایمسٹرڈیم میں میلک نے خود کو ڈچ زبان کی بنیادی باتیں ایک کتاب سے جو آنکہ دسترس میں تھی، سکھائی ۔ وہ دس مہینہ AZC میں اپنے شوہر اور اپنی نو زاد بیٹی کہ ساتھ رہی۔ اب وہ جنوب مشرقی ایمسٹرڈیم میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک گھر میں رہتی ہے۔ اپنے ڈچ کو بہتر بنانے کے لیے، اس نے ایمسٹرڈیم کی میونسپلٹی کی طرف سے پیش کردہ ایک مفت کورس کیا۔ اس کہ علاوہ اس نے Hogeschool van Amsterdam میں “Orientation Track Statusholders for the Classroom” (Oriëntatietraject Statushouders voor de Klas) بھی مکمل کیا۔ اس ٹریک کہ مدد سے نے نہ صرف اسے ڈچ زبان میں مہارت حاصل ہوی بلکہ اسے ڈچ کی تعلیمی نظام کے بارے میں بھی علم ہوا اورپر اسے سیکنڈری اسکول میں انٹرن شپ حاصل کرنے کا موقع ملا۔

اب وہ اسی اسکول میں ریاضی کی استانی کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکہنےاور سنے میں آسان لگتی ہے۔ میلک نے بتایا کہ تدریسی ملازمت تلاش کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل تھا۔ مثال کے طور پر، اس نے 40 سے زیادہ اسکولوں کے لیے درخواست دی جن میں سے صرف 5 اسکولوں نے جواب دیا۔ آخر میں، وہ دو اسکولوں میں سے انتخاب کر سکتی تھی۔ وہ بہت اداس تھی کہ کچھ اسکولوں نے بالکل جواب نہیں دیا تھا۔ “میں مختلف ہوں، میں سمجھتا ہوں، لیکن مجھے جواب کی توقع تھی ، خاص طور پر جب نیدرلینڈز میں اساتذہ کی کمی ہے۔” میلک نے محسوس کیا کہ ڈچ لوگ پہلے اس پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ “وہ دوسرے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ وہ پہلے تو آپ پر یقین نہیں کرتے، لیکن ایک بار جب آپ ان کا اعتماد حاصل کر لیں تو سب اچھا ہے اور وہ بہت اچھے اور پیارے لوگ ہیں۔”

ترکی اور ڈچ کے تعلیمی نظام میں کیا فرق ہے؟

“ڈچ تعلیم ترکی سے تھوڑی مختلف ہے۔” مثال کے طور پر، میلک نے سمجھایا کہ ترکی میں اسکولوں کی بھی مختلف سطحیں ہیں۔ لیکن فرق انکہ عمروں کا ہے جس میں بچوں کی سطح تبدیل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ترکی میں ابتدائی اسکول بھی آٹھ سال کا ہے، لیکن ہالینڈ میں بچے کم عمر میں ہائی اسکول جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، میلک کو یہ لگتا ہے کہ ڈچ بچے جو ابھی ہائی اسکول شروع کر رہے ہیں ان میں تھوڑا سا بچکانہ گی ہیں۔ میلک نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ ڈچ بچے بہت زیادہ خود مختار ہیں۔ ‘یہاں کے بچے بہت زیادہ فعال ہیں۔ ترکی میں استاد کو 100 فیصد فعال ہونا ضروری ہے، اور طالب علم صرف اس کی پیروی کرتے ہیں جو کہا جاتا ہے. “ہالینڈ میں، بچے اسائنمنٹس آزادانہ طور پر انجام دیتے ہیں بغیریہ کہ استاد ہر چیز کی وضاحت کرے۔” ایک اور فرق یہ ہے کہ ہالینڈ میں بہت سے مختلف قسم کے اسکول ہیں، جیسے کہ سرکاری، نجی یا عیسائی اسکول۔ ترکی میں صرف ایک قسم کا اسکول ہے۔

مستقبل کو دیکھتے ہوئے۔

اگرچہ میلک کو ترکی میں اپنے خاندان اور دوستوں اور اپنی ثقافت کی کمی محسوس ہوتی ہے، پھر بھی وہ ہالینڈ آنے کے انتخاب سے خوش ہے۔ اس کے خاندان اور دوست وقتاً فوقتاً اس سے ملنے آتے ہیں لیکن وہ خود ترکی واپس نہیں جا سکتی۔ میلک لیے سب سے اہم چیز آزادی ہے جو اسے ہالینڈ میں حاصل ہے۔وہ دوسرے پناہ گزینوں کو بتانا چاہتی ہےکہ شروع میں ہالینڈ آنا اور یہاں استاد بننا ایک بہت مشکل مرحلہ ہے، لیکن آپ کو کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور ہمیشہ اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ یہ وقت کے ساتھ آسان اور آسان ہو جاتا ہے.

.

Written by Georgette Schönberger

Translated by Uzair Ahmad Saleem  from [https://brokenchalk.org/interview-with-melek-kaymaz/]

قصة نسليهان أوزكان شاهين: رغم كل صراعها، تبدأ معلمة اللاجئين في التعليم لمرة أخرى

نسليهان هي لاجئة من تركيا أتت إلى هولندا لبناء حياة جديدة مع زوجها واولادها في أغسطس 2018، تركت نسليهان حياتها في تركيا وهربت إلى اليونان. هناك أمضت ثلاثة أشهر قبل مجيئها إلى هولندا. عاشت مع عائلتها في سكن جماعي في أمستلفين لبضع سنوات. عاشت مع عائلتها لمدة 19 شهرًا في مراكز مختلفة لطالبي اللجوء في جميع أنحاء هولندا. تقول نسليهان: “أعرف هولندا أفضل من الشخص الهولندي العادي الذي يسكن هناك “.

في تركيا، عملت نسليهان لفترة طويلة كمعلمة للكيمياء والفيزياء والأحياء. كانت متحمسة لبدء التعليم مجدداً عندما أتت إلى هولندا. لحسن الحظ، لم يكن العثور على وظيفة أمرًا صعبًا. من خلال مشروع “Statushouders voor de Klas”، تعلمت كيف يعمل النظام المدرسي الهولندي، مما ساعدها على تأمين تدريب داخلي. بالإضافة إلى ذلك، عملت نسليهان كمتطوعة في مدرسة وكانت تعمل هناك كمساعدة تعليم تقنية في مدرسة أبولو الثانوية في أمستردام. في نفس المدرسة، كانت قادرة على النمو، وبعد فترة، سُمح لها أيضًا بالتعليم يومين في الأسبوع. في العام المقبل، ستعلم فقط ولن تعمل كمساعدة.

 

 

لماذا قررت أن تصبح معلمة في ذلك الوقت؟

“أنا أستمتع بالتعليم؛ لا أراها كوظيفة لأنها شغفي.” لقد كانت تعلم منذ ١٨ عامًا وما زالت تستمتع بها حقًا. بعد أن أكملت تعليمها، بدأت بالتعليم على الفور. اختارت أن تصبح معلمة كيمياء وفيزياء وأحياء لأنها حصلت على أعلى الدرجات في هذه المواد الثلاثة ووجدتها مواضيع ممتعة.

لماذا قررت المجيء إلى هولندا؟

“نقرأ على الإنترنت والأخبار عن هولندا وكثيرًا ما سمعنا أنه في هولندا، يتمتع الناس بالحريات ويمكنهم مشاركة آرائهم أو أفكارهم بحرية. لسوء الحظ، ليس هذا الحال في تركيا، حيث لا يمكنك قول ما تشاء. حتى الأطفال كثيرا ما يذهبون إلى السجن بسبب التعبير عن آرائهم “. لهذا السبب، جاء شقيق وأخت نسليهان إلى هولندا مع عائلاتهم. نسليهان تقابل عائلتها كل أسبوع.

ما هي التحديات التي واجهتها عندما أتيت إلى هولندا؟

نسليهان لاجئة سياسية واعتبرت إرهابية في بلدها بسبب آرائها. اضطرت إلى الفرار مع عائلتها من تركيا بالقارب. كانت الرحلة إلى هولندا صعبة. كان عليها أن تدفع الكثير من المال والتفاوض مع مهربي البشر، الذي كان خطيرًا. بالإضافة إلى ذلك، أرادت نسليهان تعلم اللغة الهولندية وكان هذا صعبًا جدًا في البداية. ولأنها لم تكن ملزمة بالاندماج في ذلك الوقت، لم تتمكن من أخذ دورة مجانية في اللغة الهولندية أثناء إقامتها في في مركز لطالبي اللجوء. ومع ذلك، قد تعلمت بعض اللغة الهولندية من الأصدقاء والمتطوعين في المركز. لهذا، فهي إنها شاكرة جدا. أرادت نسليهان الاندماج، لذلك كان فهمها للغة أمرًا أساسيًا. بعد صراع طويل، تمكنت أخيرًا من اقتراض المال الذي تمكنت من خلاله أن تلتحق دورة تدريبية.

من حين لآخر، لا تزال تواجه مشكلة في اللغة الهولندية، خاصة لفظ ال “er” بالإضافة إلى حروف الجر المختلفة التي تجدها صعبة. بالإضافة إلى ذلك، لم تفهم حتى الآن بعض التعابير الهولندية، لكنها تعتقد أن هذا سينجح في النهاية.

كيف تختلف أنظمة المدارس التركية وأنظمة المدارس الهولندية؟

“لا توجد اختلافات كثيرة، على ما أعتقد. بالطبع، بعض الأشياء متشابهة تمامًا. على سبيل المثال، المراهقون هم مجرد مراهقين ويتصرفون بنفس الطريقة، لكن الطلاب في هولندا لديهم دائمًا فرصة للتقدم بسبب وجود مستويات مدرسية مختلفة. لذلك، فإن النظام في هولندا أفضل لأن هذه الفرصة متاحة “. تشرح نسليهان أن في تركيا، يوجد مستوى واحد فقط وأن على كل طالب أن يتعلم نفس المواد ويمتحنه. لذا، إذا كان هذا المستوى علياً، فلن يكون لديك خيار آخر لتتابع الدراسة، وهذا هو سبب الذي جعل العديد من الشباب ترك المدرسة.

الفرق الأكبر هو أن هناك القليل من التسلسل الهرمي في هولندا. “مديري وقائد فريقي هم مجرد زملائي. يُنظر إلينا على نفس المستوى ونعامل بنفس المعاملة. يمكنني أن أدعوهم باسمهم. في تركيا، عليك مخاطبة الجميع “سيدي أو سيدتي”. لا أريد أي تصنيف هرمي في تركيا، أود أن أغير هذه العادات”.

هل تريدي أن تضفي شيئاً أخراً؟

“أود أن أقول إننا جميعًا أشخاص يمكننا العيش معًا؛ علينا فقط أن نحترم بعضنا البعض. يجب أن نعامل الجميع باحترام وأن نخلق جوًا آمنًا وسلميًا. لقد جئنا إلى هنا من أجل حرياتنا، وقد أعطت هولندا الكثير من حقوقنا. لذلك، في مقابل؛ عليك إن تستخدم مهاراتك للمساعدة في الاندماج. اتخاذ هذه الخطوة الأولى أمرٌ سهل بمجرد إلقاء التحية لجيرانك، على سبيل المثال، أو بمجرد التحدث مع أي شخص ما والتعامل بلطف. ”

أرادت نسليهان أيضًا تذكير الجميع بأن العديد من الأشخاص ما زالوا مهددين في تركيا أو مهملين في السجن. يمكنك دائمًا فعل شيء من أجلهم، من خلال المشاركة والتحدث عن الموضوع بالتغريد عبر توتير.

Translated by Nadia Annous from https://brokenchalk.org/story-of-neslihan-ozcan-sahin-after-all-her-struggle-a-refugee-teacher-begins-to-teach-again/

Historia de Neslihan Ozcan Sahin: Después de toda su lucha, una profesora refugiada comienza a enseñar de nuevo

Escrito por Georgette Schönberger

Neslihan es una refugiada de Turquía que llegó a los Países Bajos para construir una nueva vida con su esposo y dos hijos.

En agosto de 2018, Neslihan dejó su vida en Turquía y huyó a Grecia. Allí pasó tres meses antes de venir a los Países Bajos. Ha vivido con su familia en viviendas sociales en Amstelveen durante algunos años. Vivió con su familia durante 19 meses en diferentes AZCs en los Países Bajos. “Conozco los Países Bajos mejor que un holandés promedio”, afirma Neslihan.

En Turquía, Neslihan trabajó durante mucho tiempo como profesora de química, física y biología. Estaba ansiosa por empezar a enseñar de nuevo cuando llegó a los Países Bajos. Afortunadamente, encontrar trabajo no fue difícil. A través del proyecto “Statushouders voor de Klas”, aprendió cómo funciona el sistema escolar holandés, lo que finalmente la ayudó a conseguir una pasantía. Además, Neslihan ha trabajado como voluntaria en una escuela. Allí trabajó como asistente de enseñanza técnica en la escuela secundaria Apollo en Ámsterdam. En la misma escuela, pudo crecer y, después de un tiempo, también se le permitió enseñar dos días a la semana. El próximo año solo enseñará y ya no trabajará como asistente.

¿Por qué decidiste convertirte en profesora en su momento?

“Disfruto enseñando; no lo veo como un trabajo porque es una pasión mía”. Lleva 18 años enseñando y todavía le gusta mucho. Después de completar su educación, comenzó a enseñar de inmediato. Eligio ser profesora de química, física y biología porque tenía las calificaciones más altas en estas tres materias y le parecían temas divertidos.

¿Por qué decidiste venir a los Países Bajos?

“Leímos en Internet y las noticias y a menudo escuchamos que en los Países Bajos, las personas son libres y pueden compartir sus opiniones o ideas. Desafortunadamente, esto no es así en Turquía, donde no eres libre y no puedes decir lo que quieres. Incluso los niños a menudo van a la cárcel por revelar sus opiniones”. Por esta razón, el hermano y la hermana de Neslihan también vinieron a los Países Bajos con sus familias. Neslihan ve a su familia cada semana.

¿Qué desafíos enfrentaste cuando llegaste a los Países Bajos?

Neslihan es una refugiada política y era considerada una terrorista en su propio país debido a sus opiniones. Toda su familia tuvo que huir de Turquía en barco. El viaje para llegar a los Países Bajos fue intenso. Tuvo que pagar mucho dinero y negociar con traficantes de personas, lo cual puede ser bastante peligroso.

Además, Neslihan quería aprender holandés; esto fue bastante difícil al principio. Como no estaba obligada a integrarse entonces, no pudo tomar un curso de holandés gratuito durante su estancia en el AZC. Sin embargo, aprendió algo de holandés de amigos y voluntarios en el AZC. Por esto, está muy agradecida. Neslihan quería integrarse y asimilarse, por lo que la comprensión del idioma era fundamental. Después de una larga lucha, finalmente logró pedir prestado dinero con el cual pudo tomar un curso.

Ocasionalmente todavía tiene problemas con el idioma holandés, especialmente con ‘er’ más las diferentes preposiciones que encuentra difíciles. Además, todavía no entiende ciertas expresiones holandesas, pero cree que eventualmente lo logrará.

¿Cuáles son las diferencias entre los sistemas escolares turcos y holandeses?

“No hay muchas diferencias, creo. Por supuesto, algunas cosas son bastante similares. Por ejemplo, los adolescentes son simplemente adolescentes y se comportan de la misma manera en ciertos aspectos, pero los estudiantes en los Países Bajos siempre tienen la oportunidad de avanzar debido a los diferentes niveles escolares. Por lo tanto, el sistema en los Países Bajos es mejor porque esa oportunidad está disponible”. Neslihan explica que en Turquía solo hay un nivel y que cada estudiante tiene que aprender las mismas materias y hacer el mismo examen. Entonces, si este nivel es demasiado alto, no tienes otra opción para continuar estudiando, por lo que muchos jóvenes abandonan la escuela.

Otra gran diferencia es que hay poca jerarquía en los Países Bajos. “Mi director y mi líder de equipo son simplemente mis colegas. Somos vistos como iguales y tratados de la misma manera. Puedo llamarlos por su nombre. En Turquía, tienes que dirigirte a todos como señor o señora. No quiero más jerarquía en Turquía; me gustaría cambiar eso”.

¿Hay algo que te gustaría compartir?

“Me gustaría decir que todos somos personas que podemos vivir juntas; solo tienes que tener respeto por los demás. Debes tratar a todos con respeto y crear un ambiente seguro y agradable. Vinimos aquí por nuestra libertad, y Holanda nos ha dado muchos derechos. Por lo tanto, tienes que hacer algo por los Países Bajos; tienes que usar tus habilidades para ayudar aquí, para integrarte. Dar ese primer paso es fácil: saludar a tus vecinos, por ejemplo, o simplemente charlar con alguien y ser amable”.

Neslihan también quería recordar a todos que muchas personas todavía están amenazadas en Turquía o olvidadas en la cárcel. Siempre puedes hacer algo por ellas, por ejemplo, compartiendo algo en Twitter o hablando de ello.

Traducido por Daniel Ordoñez del original Story of Neslihan Ozcan Sahin: After all her struggle, a refugee teacher begins to teach again.

Η ιστορία της Neslihan Ozcan Sahin: Μια δασκάλα πρόσφυγας, η οποία αφού πέρασε πολλά, διδάσκει ξανά 

Από την Georgette Schonberger

Η Neslihan είναι πρόσφυγας από την Τουρκία που ήρθε στην Ολλανδία με τον άνδρα της και τα δύο παιδιά τους για μια καινούργια ζωή.

Τον Αύγουστο του 2018 άφησε πίσω την ζωή της στην Τουρκία και πήγε στην Ελλάδα. Εκεί έμεινε για 3 μήνες πριν φθάσει στην Ολλανδία. Έζησε με την οικογένειά της σ’ έναν ξενώνα στην περιοχή Amstelveen για αρκετά χρόνια. Έζησε με την οικογένεια της για 19 μήνες σε διάφορα κέντρα ασύλου της Ολλανδίας. Όπως λέει η ίδια: ”Ξέρω την Ολλανδία καλύτερα από τον μέσο Ολλανδό”.

Στην Τουρκία η Neslihan εργαζόταν ως δασκάλα χημείας, φυσικής και βιολογίας. Ήταν πρόθυμη να διδάξει ξανά, όταν ήρθε στην Ολλανδία. Ευτυχώς, το να βρει δουλειά δεν ήταν δύσκολο. Μέσα από το πρόγραμμα ”Statushouders voor de Klas project” έμαθε πώς λειτουργεί το εκπαιδευτικό σύστημα της Ολλανδίας, κάτι που την βοήθησε να κάνει κάπου πρακτική. Επίσης, εργάστηκε ως εθελόντρια σ’ ένα σχολείο. Εκεί ήταν τεχνική βοηθός δασκάλου στο λύκειο Apollo στο Άμστερνταμ. Στο ίδιο σχολείο μπόρεσε να εξελιχθεί και μετά από λίγο της επετράπη να δουλεύει 2 ημέρες την βδομάδα. Τον επόμενο χρόνο μπορούσε να διδάξει και δεν ήταν πια βοηθός.

Γιατί αποφασίσατε να γίνετε δασκάλα εκείνη την περίοδο; 

«Διασκεδάζω διδάσκοντας, δεν το βλέπω σαν δουλειά, επειδή είναι ένα πάθος για μένα». Διδάσκει εδώ και 18 χρόνια και ακόμα και τώρα το διασκεδάζει. Μόλις τελείωσε τις σπουδές της, άρχισε να διδάσκει αμέσως. Επέλεξε να γίνει καθηγήτρια χημείας, φυσικής και βιολογίας, επειδή είχε τους υψηλότερους βαθμούς σ’ αυτά τα 3 μαθήματα και τα έβρισκε ενδιαφέροντα.

Γιατί αποφασίσατε να έρθετε στην Ολλανδία; 

«Διαβάζαμε στο Ίντερνετ και στα νέα και ακούγαμε συχνά ότι στην Ολλανδία οι άνθρωποι είναι ελεύθεροι να μοιράζονται την γνώμη τους ή τις ιδέες τους. Δυστυχώς, αυτό δεν ισχύει στην Τουρκία, όπου δεν είσαι ελεύθερος και δεν μπορείς να πεις αυτό που θέλεις. Ακόμα και τα παιδιά πηγαίνουν συχνά στη φυλακή, επειδή λένε την άποψή τους». Εξαιτίας αυτού, ο αδερφός και η αδερφή της Neslihan ήρθαν επίσης στην Ολλανδία με τις οικογένειές τους. Η Neslihan βλέπει πλέον την οικογένειά της κάθε βδομάδα.

Ποιες δυσκολίες αντιμετωπίσατε, όταν ήρθατε στην Ολλανδία; 

Η Neslihan είναι πολιτικός πρόσφυγας και θεωρείται τρομοκράτης στην χώρα της λόγω των απόψεων της. Με όλη την οικογένεια της έφυγε από την Τουρκία με βάρκα. Το ταξίδι προς την Ολλανδία δεν ήταν εύκολο. Έπρεπε να δώσει πολλά χρήματα και να διαπραγματευθεί με εμπόρους, κάτι που ήταν αρκετά επικίνδυνο.

Επίσης, η Neslihan ήθελε να μάθει Ολλανδικά, κάτι που ήταν ιδιαίτερα δύσκολο στην αρχή. Επειδή τότε δεν ήταν υποχρεωμένη να ενταχθεί, δεν μπορούσε να παρακολουθήσει δωρεάν μαθήματα της ολλανδικής, όσο βρισκόταν στο κέντρο ασύλου. Παρ’ όλα αυτά, έμαθε λίγα ολλανδικά από κάποιους φίλους και εθελοντές στο κέντρο ασύλου. Γι’ αυτό, είναι πολύ ευγνώμων. Η Neslihan ήθελε να ενσωματωθεί και να αφομοιωθεί, οπότε η κατανόηση της γλώσσας ήταν κάτι βασικό γι’ αυτή. Μετά από πολλή προσπάθεια, μπόρεσε να δανειστεί χρήματα και να παρακολουθήσει μαθήματα.

Κάποιες φορές ακόμα έχει πρόβλημα με την ολλανδική γλώσσα, ειδικά το er με τις διαφορετικές προθέσεις το βρίσκει δύσκολο. Επιπλέον, ακόμα δεν καταλαβαίνει κάποιες εκφράσεις στα ολλανδικά, αλλά πιστεύει ότι στο τέλος θα τα καταφέρει.

Ποιες είναι οι διαφορές ανάμεσα στο τουρκικό και στο ολλανδικό εκπαιδευτικό σύστημα; 

«Δεν υπάρχουν πολλές διαφορές, πιστεύω. Φυσικά, σε κάποια σημεία υπάρχουν ομοιότητες. Για παράδειγμα, οι έφηβοι είναι έφηβοι και συμπεριφέρονται με συγκεκριμένο τρόπο, αλλά οι μαθητές στην Ολλανδία πάντα έχουν την ευκαιρία να συνεχίσουν εξαιτίας των διαφορετικών επιπέδων στα σχολεία. Επομένως, το σύστημα στην Ολλανδία είναι καλύτερο, επειδή δίνει ευκαιρίες». Η Neslihan εξηγεί ότι στην Τουρκία υπάρχει μόνο ένα επίπεδο και όλοι οι μαθητές πρέπει να μάθουν τα ίδια και να δώσουν τις ίδιες εξετάσεις. Έτσι, αν το επίπεδο είναι πάρα πολύ υψηλό, δεν έχεις άλλη επιλογή να συνεχίσεις τις σπουδές σου, κάτι που εξηγεί γιατί πολλοί νέοι παρατάνε το σχολείο.

Μια άλλη μεγάλη διαφορά είναι ότι δεν υπάρχει ιεραρχία στην Ολλανδία. «Ο διευθυντής μου και ο επικεφαλής της ομάδας μου είναι απλώς συνάδελφοί μου. Είμαστε το ίδιο και αντιμετωπιζόμαστε το ίδιο. Μπορώ να τους μιλήσω με το όνομά τους. Στην Τουρκία πρέπει να αποκαλείς κάποιον ή κάποια κύριο ή κυρία. Δεν θέλω άλλη την ιεραρχία στην Τουρκία. Θα ήθελα να αλλάξει αυτό».

Θα θέλατε να μοιραστείτε κάτι; 

«Θα ήθελα να πω ότι όλοι είμαστε άνθρωποι που μπορούμε να συνυπάρξουμε, πρέπει να σέβεται ο ένας τον άλλο. Πρέπει να αντιμετωπίζεις τον άλλο με σεβασμό και να δημιουργείς μια ασφαλή και ωραία ατμόσφαιρα. Ήρθαμε εδώ για την ελευθερία μας και η Ολλανδία μας έδωσε πολλά δικαιώματα. Επομένως, πρέπει να κάνεις κάτι για την Ολλανδία, πρέπει να χρησιμοποιήσεις τις ικανότητες σου για να βοηθήσεις εδώ, να ενσωματωθείς. Το πρώτο βήμα είναι εύκολο: να χαιρετάς τους γείτονες σου ,να  μιλάς με κάποιον και να είσαι καλός».

Η Neslihan ήθελε να υπενθυμίσει σε όλους ότι πολλοί άνθρωποι απειλούνται ακόμα στην Τουρκία ή είναι ξεχασμένοι στη φυλακή. Πάντα μπορείς να κάνεις κάτι για αυτούς, για παράδειγμα να μοιραστείς κάτι στο Twitter ή να μιλήσεις γι’ αυτό.

Μετάφραση από την Αλεξία Καψαμπέλη (Translated by Alexia Kapsabeli) from the original https://brokenchalk.org/story-of-neslihan-ozcan-sahin-after-all-her-struggle-a-refugee-teacher-begins-to-teach-again/

L’histoire de Neslihan Ozcan Sahin : Après toutes ses difficultés, une enseignante réfugiée recommence à enseigner.

Écrit par Georgette Schönberger

Neslihan est une réfugiée de Turquie qui est venue aux Pays-Bas pour construire une nouvelle vie avec son mari et ses deux enfants.

En août 2018, Neslihan a laissé derrière elle sa vie en Turquie et s’est réfugiée en Grèce. Elle y a passé trois mois avant de venir aux Pays-Bas. Elle a vécu avec sa famille dans un logement social à Amstelveen pendant quelques années. Elle a vécu avec sa famille pendant 19 mois dans différents centres d’hébergement d’urgence (AZC) à travers les Pays-Bas. “Je connais les Pays-Bas mieux qu’un Néerlandais ordinaire”, affirme Neslihan.

En Turquie, Neslihan a longtemps travaillé comme professeur de chimie, de physique et de biologie. Elle était impatiente de recommencer à enseigner lorsqu’elle est arrivée aux Pays-Bas. Heureusement, il n’a pas été difficile de trouver un emploi. Grâce au projet “Statushouders voor de Klas”, elle a appris le fonctionnement du système scolaire néerlandais, ce qui lui a permis de décrocher un stage. En outre, Neslihan a travaillé comme bénévole dans une école. Elle a travaillé comme assistante technique au lycée Apollo d’Amsterdam. Dans cette même école, elle a pu évoluer et, après un certain temps, elle a été autorisée à enseigner deux jours par semaine. L’année suivante, elle ne travaillera plus qu’en tant qu’assistante, mais en tant qu’enseignante.

Pourquoi avez-vous décidé de devenir enseignante à l’époque ?

“J’aime enseigner ; je ne vois pas cela comme un travail, car c’est une passion pour moi.” Cela fait maintenant 18 ans qu’elle enseigne et elle aime toujours autant son métier. Après avoir terminé ses études, elle a tout de suite commencé à enseigner. Elle a choisi d’enseigner la chimie, la physique et la biologie parce qu’elle avait les meilleures notes dans ces trois matières et qu’elle les trouvait amusantes.

Pourquoi avez-vous décidé de venir aux Pays-Bas ?

“Nous avons lu sur Internet et dans les journaux et nous avons souvent entendu dire qu’aux Pays-Bas, les gens sont libres et peuvent partager leurs opinions ou leurs idées. Malheureusement, ce n’est pas le cas en Turquie, où l’on n’est pas libre et où l’on ne peut pas dire ce que l’on veut. Même les enfants vont souvent en prison pour avoir révélé leurs opinions”. Pour cette raison, le frère et la sœur de Neslihan sont également venus aux Pays-Bas avec leur famille. Neslihan voit sa famille chaque semaine.

Quelles difficultés avez-vous rencontrées en arrivant aux Pays-Bas ?

Neslihan est une réfugiée politique et elle était considérée comme une terroriste dans son propre pays en raison de ses opinions. Avec toute sa famille, elle a dû fuir la Turquie par bateau. Le voyage jusqu’aux Pays-Bas a été éprouvant. Elle a dû payer beaucoup d’argent et négocier avec des passeurs, ce qui peut être très dangereux.

En outre, Neslihan voulait apprendre le néerlandais, ce qui s’est avéré assez difficile au début. Comme elle n’était pas obligée de s’intégrer à l’époque, elle n’a pas pu suivre de cours de néerlandais gratuits pendant son séjour à l’AZC. Elle a toutefois appris quelques notions de néerlandais grâce à des amis et des bénévoles de l’AZC. Elle en est très reconnaissante. Neslihan voulait s’intégrer et s’assimiler, et sa compréhension de la langue était donc fondamentale. Après une longue lutte, elle a finalement réussi à emprunter de l’argent, ce qui lui a permis de participer à un cours.

De temps en temps, elle a encore des difficultés avec la langue néerlandaise, en particulier avec le “er” et les différentes prépositions qu’elle trouve difficiles. En outre, elle ne comprend pas encore certaines expressions néerlandaises, mais elle pense que cela finira par s’arranger.

Quelles sont les différences entre les systèmes scolaires turc et néerlandais ?

“À mon avis, il n’y a pas tant de différences. Bien sûr, certaines choses sont assez similaires. Par exemple, les adolescents ne sont que des adolescents et se comportent de la même manière à certains égards, mais aux Pays-Bas, les élèves ont toujours la possibilité de passer à un autre niveau grâce aux différents niveaux scolaires. Par conséquent, le système néerlandais est mieux, car cette opportunité leur est offerte”.

Neslihan explique qu’en Turquie, il n’y a qu’un seul niveau et que chaque élève doit apprendre les mêmes matières et passer le même examen. Si le niveau est trop élevé, il n’y a pas d’autre possibilité de continuer à étudier, ce qui explique pourquoi de nombreux jeunes abandonnent l’école.

Une autre grande différence est qu’il y a peu de hiérarchie aux Pays-Bas. “Mon directeur et mon chef d’équipe sont simplement mes collègues. Nous sommes considérés et traités de la même manière. Je peux les appeler par leur nom. En Turquie, il faut s’adresser à tout le monde par monsieur ou madame. Je ne veux plus de hiérarchie en Turquie ; j’aimerais que cela change”.

Y a-t-il quelque chose que vous aimeriez partager ?

“J’aimerais dire que nous sommes tous des personnes qui peuvent vivre ensemble ; il suffit de se respecter les uns les autres. Il faut traiter tout le monde avec respect et créer une atmosphère sûre et plaisante. Nous sommes venus ici pour notre liberté et la Hollande nous a donné de nombreux droits. Par conséquent, vous devez faire quelque chose pour les Pays-Bas ; vous devez utiliser vos compétences pour aider le pays et vous intégrer. Le premier pas est facile à faire : dire bonjour à ses voisins, par exemple, ou simplement discuter avec quelqu’un et être gentil.”

Neslihan tient également à rappeler que de nombreuses personnes sont encore menacées en Turquie ou oubliées en prison. Vous pouvez toujours faire quelque chose pour eux, par exemple en partageant quelque chose sur Twitter ou en en parlant.

 

Traduit par Laura Goubran

Translated form the original Story of Neslihan Ozcan Sahin: After all her struggle, a refugee teacher begins to teach again.

مقابلة مع ملك كيماز

بواسطة جورجيت شونبرغر

ترجمة ن.محمد

ملك كيماز لاجئة تركية تعمل حاليًا كمدرسة رياضيات في إحدى المدارس الثانوية الدولية في أمستردام.حيث تقوم بتدريس الرياضيات باللغة الهولندية لطلاب المدارس الثانوية المختلفة.

كيف انتهى بها الأمر في هولندا؟

هربت ملك وزوجها من تركيا. عاشوا في العراق لمدة ثلاث سنوات قبل القدوم إلى هولندا، حيث عملت ملك كمدرسة رياضيات.ولكن عندما حملت بطفلتها، عرفوا أن العودة إلى تركيا والبقاء في العراق ليس ضمن الخيارات المتاحة لهم. سعى الأبوين لمستقبل أفضل لابنتهم، لم يكن لديهم أي فكرة عن المكان الذي يمكنهم الذهاب إليه، حيث أوضحت ملك: “لم يكن لدينا تأشيرة لدخول دولة أوروبية، ولا بطاقة خضراء للانتقال إلى الولايات المتحدة”. بعد قضاء بعض الوقت في البحث عن خياراتهم على الإنترنت، اكتشفوا أن هولندا بلد ترحب باللاجئين، حيث يمكنهم الحصول على المساعدة والحرية. اكملت ملك “الحرية، هذا مهم جدًا بالنسبة لي، هذا هو سبب قدومي إلى هولندا”. والآن، تعيش هي وزوجها في هولندا منذ خمس سنوات. 

كانت خطوة كبيرة، كان لدي صعوبة كبيرة في التكيف في البداية، لم أكن أعرف معنى العيش في هولندا. لم أكن أتحدث اللغة ولا أعرف أي شيء عن الثقافة الهولندية”. كان الزوجان في هولندا بمفردهم، بدون أي أقارب أو معارف.

 

لماذا أصبحت مدرسة رياضيات؟

أوضحت ملك “عندما كنت طفلة، لم يكن حلمي أن أصبح مدرسة رياضيات.ولكن فيما بعد، كان علي أن أتخذ خيارًا، إلى أي اتجاه أريد أن أذهب. كنت أعرف أنني أحب الرياضيات. أراها كلعبة أو لغز أريد حله. كما كنت أعرف أنني أحب تدريس الرياضيات للآخرين. غالبًا ما كان علي أن أشرح الأشياء لإخوتي أو عائلتي وأحببت ذلك. لذلك، كان الخيار لأصبح مدرسة رياضيات خيارًا جيدًا جدًا”.

 

ما هي التحديات التي واجهتها ملك؟

عندما وصلت ملك وزوجها إلى هولندا، كان عليهما أن يبدآ من الصفر، لم يكن لديهما فكرة عن اللغة الهولندية أو الثقافة الهولندية. في مركز للاجئين في أمستردام، علمت ملك نفسها اساسيات اللغة الهولندية من خلال الكتب المتوفرة هناك. انتهى بها المطاف بالعيش لمدة 10 أشهر في المركز مع زوجها وابنتها حديثة الولادة. الآن تعيش في منزل مع عائلتها في جنوب شرق أمستردام. اتخذت دورة مجانية تقدمها بلدية أمستردام لتحسين لغتها الهولندية. كما أنها أكملت “مسار التوجيه لحاملي حق الإقامة في الفصول الدراسية” في كلية هوخسكول فان أمستردام. لم يساعدها هذا المسار فقط على إتقان الهولندية، ولكنه أيضًا علمها نظام التعليم الهولندي الذي مكنها من الحصول على فترة تدريبية في مدرسة ثانوية.

حتى الان تعمل ملك في نفس المدرسة معلمة للرياضيات. تبدو الأمور أسهل مما هي عليه. كما أنها وجدت صعوبة بشكل لا يصدق في العثور على وظيفة تعليمية. حيث تقدمت بطلب لأكثر من 40 مدرسة، ولم تستجب لها سوى 5 مدارس. في النهاية، استطاعت الاختيار ما بين مدرستين. لكنها كانت حزينة جدًا لأن بعض المدارس لم ترد عليها. اردفت ملك”أفهم أنني مختلفة لكني ما زلت اتوقع وأنتظر الرد، خاصةً نظرًا لنقص المعلمين في هولندا”.

شعرت ملك بأن الهولنديين لم يثقوا بها في البداية. قالت “يخافون من الآخرين، ولا يصدقونك في البداية، ولكن بمجرد اكتساب ثقتهم، تصبح الامور احسن ويتعاملون معك بطريقة لطيفة وحلوة”.

 

ما هي الاختلافات بين النظامين التعليميين التركي والهولندي؟

“التعليم الهولندي يختلف قليلاً عن التعليم التركي.” شرحت لنا ملك أن المدارس في تركيا لديها مستويات مختلفة أيضاً. ولكن الفرق هو الأعمار التي يغير فيها الأطفال المستويات. على سبيل المثال، المدرسة الابتدائية في تركيا تستمر لمدة 8 سنوات أيضاً، لكن الأطفال في هولندا يذهبون إلى المدرسة الثانوية في سن أصغر. بسبب هذا، شعرت ملك أن الأطفال الهولنديين الذين يبدؤون المدرسة الثانوية حديثاً يبدون أكثر طفولية. كما لاحظت أن الأطفال الهولنديين أكثر استقلالية بكثير. “الأطفال هنا أكثر نشاطاً بكثير. في تركيا، يجب على المعلم أن يكون نشطاً بنسبة 100 في المائة، والطلاب يتبعون فقط ما يقال.” الفرق الآخر هو أنه في هولندا هناك أنواع مدارس مختلفة، مثل المدارس العامة والخاصة والمدارس المسيحية. في تركيا، هناك نوع واحد فقط من المدارس.

 

نظرة إلى المستقبل

 

تعبر ملك عن سعادتها بقرارها بالانتقال إلى هولندا على الرغم من الشوق إلى عائلتها وأصدقائها في تركيا وثقافتها. عائلتها وأصدقائها يزورونها بين الحين والآخر، لكنها لا يمكنها العودة إلى تركيا. حيث يعد الشيء الأكثر أهمية بالنسبة لها هو الحرية التي تتمتع بها في هولندا. تريد ملك أن توضح للاجئين الآخرين أن الخطوة الأولى بالقدوم إلى هولندا والعمل كمدرس هنا صعبة للغاية، ولكن يجب عليهم عدم الاستسلام وبذل قصارى جهدهم، مع الوقت يصبح الأمر أسهل.

Hadithi ya Neslihan Ozcan Sahin: Baada ya mapambano yote, mwalimu mkimbizi anaanza kufundisha tena.

Imeandikwa na Georgette Schönberger

Neslihan ni mkimbizi kutoka Uturuki ambaye alikuja Uholanzi ili kujenga maisha mapya na mumewe na watoto wao wawili.

Mwezi Agosti 2018, Neslihan aliacha maisha yake Uturuki nyuma na kukimbia Ugiriki. Alikuwa huko kwa miezi mitatu kabla ya kuja Uholanzi. Amekuwa akiishi na familia yake katika nyumba za kijamii huko Amstelveen kwa miaka kadhaa. Aliishi na familia yake kwa muda wa miezi 19 katika vituo tofauti vya mapokezi ya wakimbizi (AZCs) nchini Uholanzi. “Ninajua Uholanzi vizuri zaidi kuliko Mholanzi wa kawaida,” anasema Neslihan.

Uturuki, Neslihan alikuwa amefanya kazi kama mwalimu wa kemia, fizikia, na biolojia kwa muda mrefu. Alikuwa na hamu ya kuanza kufundisha tena alipokuja Uholanzi. Bahati nzuri, kupata kazi haikuwa ngumu. Kupitia mradi wa “Statushouders voor de Klas”, alifundishwa jinsi mfumo wa shule ya Kiholanzi unavyofanya kazi, ambayo hatimaye ilimsaidia kupata mafunzo kazini. Aidha, Neslihan amefanya kazi kama mtoa huduma wa kujitolea katika shule. Huko alikuwa akifanya kazi kama msaidizi wa ufundishaji wa kiufundi katika shule ya upili ya Apollo huko Amsterdam. Katika shule hiyo hiyo, alikuwa na fursa ya kukua na baada ya muda, aliruhusiwa pia kufundisha siku mbili kwa wiki. Mwaka ujao atafundisha tu na hatafanya kazi tena kama msaidizi.

Kwa nini uliamua kuwa mwalimu wakati huo?

“Ninapenda kufundisha; Sioni hiyo kama kazi kwa sababu ni shauku yangu.” Amesoma kwa miaka 18 sasa na bado anafurahia sana. Baada ya kumaliza elimu yake, alianza kufundisha mara moja. Aliamua kuwa mwalimu wa kemia, fizikia, na biolojia kwa sababu alikuwa na alama za juu katika somo hizo tatu na aliziona kuwa mada za kufurahisha.

Kwa nini uliamua kuja Uholanzi?

“Tulisoma kwenye mtandao na habari na mara nyingi tulisikia kwamba Uholanzi, watu ni huru na wanaweza kushiriki maoni au mawazo yao. Kwa bahati mbaya, hii sio kesi nchini Uturuki, ambapo huwa huru na huwezi kusema unachotaka. Hata watoto mara nyingi wanakwenda gerezani kwa kufichua maoni yao”. Kwa sababu hii, ndugu na dada wa Neslihan pia walikuja Uholanzi na familia zao. Neslihan anawaona familia yake kila wiki.

Ulikabiliana na changamoto gani ulipofika Uholanzi?

Neslihan ni mkimbizi wa kisiasa na alikuwa akichukuliwa kama mtu wa kigaidi katika nchi yake kutokana na maoni yake. Pamoja na familia yake nzima, alilazimika kukimbia Uturuki kwa boti. Safari ya kufika Uholanzi ilikuwa ngumu. Alikuwa na kulipa fedha nyingi na kujadiliana na wasafirishaji wa watu, ambayo inaweza kuwa hatari sana.

Mbali na hayo, Neslihan alitaka kujifunza Kiholanzi; hii ilikuwa ngumu sana mwanzoni. Kwa sababu hakulazimika kujiunga wakati huo, hakuweza kuhudhuria kozi ya bure ya lugha ya Kiholanzi wakati wa kuishi kwake katika vituo vya mapokezi ya wakimbizi. Hata hivyo, aliweza kujifunza Kiholanzi kidogo kutoka kwa marafiki na wafanyakazi wa kujitolea katika vituo hivyo. Kwa hilo, anashukuru sana. Neslihan alitaka kujiunga na kufyonza tamaduni, kwa hivyo ufahamu wake wa lugha ulikuwa muhimu. Baada ya mapambano marefu, hatimaye alifanikiwa kukopa pesa ambazo alitumia kwa kozi.

Marafiki na wafanyakazi wa kujitolea katika AZC. Kwa hili, anashukuru sana. Neslihan alitaka kujiunga na kufyonza tamaduni, kwa hivyo ufahamu wake wa lugha ulikuwa muhimu. Baada ya mapambano marefu, hatimaye alifanikiwa kukopa pesa ambazo alitumia kwa kozi.

Kwa mara chache bado ana shida na lugha ya Kiholanzi, hasa ‘er’ na viambishi mbalimbali ambavyo anavipata vigumu. Aidha, bado haelewi baadhi ya mafumbo ya Kiholanzi, lakini anaamini kwamba hatimaye itatengemaa.

Je, kuna tofauti kati ya mfumo wa shule wa Uturuki na Uholanzi?

“Hakuna tofauti nyingi, nadhani. Bila shaka, mambo fulani ni sawa kabisa. Kwa mfano, vijana ni vijana tu na wanajitahidi kwa njia zinazofanana, lakini wanafunzi nchini Uholanzi wana fursa ya kuendelea kutokana na viwango tofauti vya shule. Kwa hivyo, mfumo wa Uholanzi ni bora kwa sababu fursa hiyo ipo.” Neslihan anaelezea kwamba nchini Uturuki, kuna kiwango kimoja tu na kila mwanafunzi lazima ajifunze masomo sawa na kufanya mtihani sawa. Kwa hiyo, ikiwa kiwango hiki ni kigumu sana, huna chaguo lingine la kuendelea kusoma, ndiyo maana vijana wengi wanakatisha masomo.

Tofauti nyingine kubwa ni kwamba kuna mamlaka kidogo nchini Uholanzi. “Mkurugenzi wangu na kiongozi wangu wa timu ni wenzangu tu. Tunachukuliwa kama sawa na kutendewa kwa njia ile ile. Nawaweza kuwaita kwa majina yao. Uturuki, lazima umwite kila mtu bwana au bibi. Sipendi kuwa na mamlaka zaidi nchini Uturuki; ningependa kubadilisha hilo”.

Je, kuna kitu chochote unachotaka kushiriki?

“Ningependa kusema kwamba sote ni binadamu ambao tunaweza kuishi pamoja; unapaswa tu kuwa na heshima kwa wengine. Lazima umtendee kila mtu kwa heshima na kuunda mazingira salama na mazuri. Tulikuja hapa kwa uhuru wetu, na Uholanzi imetupa haki nyingi. Kwa hiyo, lazima ufanye kitu kwa ajili ya Uholanzi; lazima utumie ujuzi wako kusaidia hapa, kujumuika. Kuchukua hatua ya kwanza ni rahisi: kusema “jambo” kwa majirani zako, kwa mfano, au tu kuzungumza na mtu na kuwa mwenye heshima.”

Neslihan pia alitaka kukumbusha kila mtu kwamba wengi bado wanatishiwa nchini Uturuki au wameachwa gerezani. Unaweza daima kufanya kitu kwa ajili yao, kwa mfano, kwa kushiriki kitu kwenye Twitter au kuzungumza juu yake.

Imetafsiriwa na Joseph Kamanga kutoka kwa asili https://brokenchalk.org/story-of-neslihan-ozcan-sahin-after-all-her-struggle-a-refugee-teacher-begins-to-teach-again/

内斯利安-奥兹坎-萨欣(Neslihan Ozcan Sahin)的故事:在经历了所有的挣扎之后,一位难民教师又开始教书了。

Written by Georgette Schönberger

内斯利安(Neslihan)是一名来自土耳其的难民,她来到荷兰与她的丈夫和两个孩子建立了新的生活。

2018年8月,内斯利安离开了土耳其,逃到了希腊。在来到荷兰之前,她在那里呆了三个月。她与家人在阿姆斯特尔芬的社会住房中生活了几年。她与家人在荷兰各地的不同AZC生活了19个月。”我比一般的荷兰人更了解荷兰”,内斯利安称。

在土耳其,内斯利安曾长期担任化学、物理和生物教师。当她来到荷兰时,她渴望再次开始教学。幸运的是,找到一份工作并不困难。通过 “Statushouders voor de Klas项目”,她学到了荷兰学校系统的运作方式,这最终帮助她获得了一份实习工作。此外,内斯利安还在一所学校担任过志愿者。在那里,她在阿姆斯特丹的阿波罗高中担任技术教学助理。在同一所学校工作了一段时间后,她得到了提拔,被允许每周教两天书。明年,她将只教学,而不再担任助理工作。

你当时为什么决定成为一名教师?

“我喜欢教学;我不把它看作是一份工作,因为这是我的一种激情”。她已经教了18年的书,仍然非常喜欢它。从学校毕业后后,她立即开始教学。她选择成为一名化学、物理和生物老师,因为她在这三个科目中的成绩最高,并且发现这些科目很有趣。

你为什么决定到荷兰来?

“我们通过互联网和新闻阅读,经常听说在荷兰,人们是自由的,可以分享他们的意见或想法。不幸的是,土耳其的情况并非如此,在那里你没有自由,不能说你想说的话。甚至儿童也经常因为透露自己的意见而被关进监狱”。正因为如此,内斯利安的哥哥和姐姐也和他们的家人来到了荷兰。奈斯利汉每周都会见到她的家人。

当你来到荷兰时,你遇到了什么挑战?

内斯利安是一名政治难民,由于她的观点,在她自己的国家被认为是恐怖分子。她与全家人一起,不得不乘船逃离土耳其。来到荷兰的旅程非常紧张。她不得不支付很多钱,并与偷渡者谈判,这可能是相当危险的。

此外,内斯利安还想学习荷兰语;这在一开始是相当困难的。因为她当时没有义务融入社会,所以她在AZC逗留期间无法参加免费的荷兰语课程。不过,她从AZC的朋友和志愿者那里学到了一些荷兰语。为此,她非常感激。内斯利安希望能够融入和同化,因此她的语言理解能力是最基本的。经过长期的斗争,她终于成功地借到了钱,从而能够参加一个课程。

偶尔她还会遇到荷兰语的问题,尤其是 “er “加上不同的介词,她觉得很困难。此外,她还不理解某些荷兰语表达方式,但她相信这最终会解决这些问题。

土耳其和荷兰的学校系统之间有什么区别?

“我想,没有太多的不同。当然,有些事情是很相似的。例如,青少年只是青少年,在某些方面的行为是一样的,但荷兰的学生总是有机会继续前进,因为学校的级别不同。因此,荷兰的制度更好,因为有这种机会”。内斯利安解释说,在土耳其,只有一个级别,每个学生都必须学习相同的科目,参加相同的考试。因此,如果这个级别太高,你就没有其他选择来继续学习,这就是为什么许多年轻人辍学。

另一个很大的区别是,在荷兰没有什么等级制度。”我的主任和我的团队领导只是我的同事。我们被看作是一样的,待遇也是一样的。我可以直呼他们的名字。在土耳其,你必须用先生或女士来称呼所有人。我希望在土耳其也不再有等级制度;我想改变这种状况”。

你有什么想分享的吗?

“我想说的是,我们都是可以随便生活在一起的人;你只需要相互尊重。你必须尊重每个人,创造一个安全和良好的氛围。我们来这里是为了自由,荷兰给了我们很多权利。因此,你必须为荷兰做一些事情;你必须用你的技能来帮助这里,融入这里。迈出这第一步很容易:例如,向你的邻居打招呼,或者只是与人聊天,对人友善”。

内斯利安还想提醒大家,许多人在土耳其仍然受到威胁或被遗忘在监狱里。你总是可以为他们做一些事情,例如,在推特上分享一些东西或与朋友谈论它们。

Translated by Niyang Bai from https://brokenchalk.org/story-of-neslihan-ozcan-sahin-after-all-her-struggle-a-refugee-teacher-begins-to-teach-again/

La storia di Neslihan Ozcan Sahin: Dopo tante battaglie, un’insegnante rifugiata ricomincia a insegnare

Scritto da Georgette Schönberger

Neslihan è una rifugiata turca giunta nei Paesi Bassi per costruirsi una nuova vita con il marito e i due figli.

Nell’agosto del 2018, Neslihan si è lasciata alle spalle la sua vita in Turchia ed è fuggita in Grecia. Lì ha trascorso tre mesi prima di arrivare in Olanda. Ha vissuto con la sua famiglia in una casa popolare ad Amstelveen per alcuni anni. Ha vissuto con la sua famiglia per 19 mesi in diversi centri di accoglienza dei Paesi Bassi. Neslihan afferma: “Conosco i Paesi Bassi meglio di un olandese medio”.

In Turchia, Neslihan ha lavorato a lungo come insegnante di chimica, fisica e biologia. Quando è arrivata nei Paesi Bassi, non vedeva l’ora di ricominciare a insegnare. Fortunatamente, trovare un lavoro non è stato difficile. Grazie al progetto “Statushouders voor de Klas”, le è stato spiegato il funzionamento del sistema scolastico olandese, permettendole di ottenere un tirocinio. Inoltre, Neslihan ha lavorato come volontaria in una scuola. Ha lavorato come assistente tecnico all’insegnamento presso il liceo Apollo di Amsterdam. Nella stessa scuola ha avuto modo di crescere e, dopo un po’, le è stato permesso di insegnare due giorni alla settimana. L’anno prossimo insegnerà soltanto e non lavorerà più come assistente.

Perché ha deciso di diventare insegnante?

“Mi piace insegnare, non lo vedo come un lavoro perché è una mia passione”. Insegna ormai da 18 anni e continua a divertirsi molto. Dopo aver completato la sua formazione, ha iniziato subito a insegnare. Ha scelto di diventare insegnante di chimica, fisica e biologia perché aveva i voti più alti in queste tre materie e le trovava interessanti.

Perché ha deciso di venire nei Paesi Bassi?

“Leggiamo su Internet e nei telegiornali e spesso sentiamo dire che nei Paesi Bassi le persone sono libere e possono condividere le loro opinioni o idee. Purtroppo, non è lo stesso in Turchia, dove non si è liberi e non si può dire ciò che si vuole. Persino i bambini finiscono spesso in prigione per aver rivelato le loro opinioni”. Per questo motivo, anche il fratello e la sorella di Neslihan sono venuti nei Paesi Bassi con le loro famiglie. Neslihan vede la sua famiglia ogni settimana.

Quali sfide ha dovuto affrontare quando è arrivato nei Paesi Bassi?

Neslihan è una rifugiata politica e nel suo Paese è stata considerata una terrorista a causa delle sue idee. Con tutta la sua famiglia, è dovuta fuggire dalla Turchia in barca. Il viaggio per arrivare nei Paesi Bassi è stato intenso. Ha dovuto pagare molti soldi e negoziare con i trafficanti di esseri umani, il che può essere molto pericoloso.

Inoltre, Neslihan voleva imparare l’olandese, cosa che all’inizio è stata piuttosto difficile. Non essendo obbligata a integrarsi, non ha potuto seguire un corso gratuito di olandese durante il suo soggiorno in AZC. Tuttavia, ha imparato un po’ di olandese da amici e volontari dell’AZC.E di ciò è molto grata. Neslihan voleva integrarsi e assimilarsi, quindi la comprensione della lingua era fondamentale. Dopo una lunga battaglia, è finalmente riuscita a ottenere un prestito con il quale ha potuto frequentare un corso.

A volte ha ancora problemi con la lingua olandese, in particolare con “er” e le diverse preposizioni che trova difficili. Inoltre, non capisce ancora alcune espressioni olandesi, ma è sicura che alla fine tutto si risolverà.

Quali sono le differenze tra il sistema scolastico turco e quello olandese?

“Non ci sono molte differenze, credo. Certo, alcune cose sono abbastanza simili. Per esempio, gli adolescenti sono solo adolescenti e si comportano sempre nello stesso modo, ma gli studenti nei Paesi Bassi hanno sempre la possibilità di andare avanti grazie ai diversi livelli scolastici. Pertanto, il sistema dei Paesi Bassi è migliore perché c’è questa possibilità”. Neslihan spiega che in Turchia c’è un solo livello e che ogni studente deve imparare le stesse materie e sostenere lo stesso esame. Quindi, se questo livello è troppo alto, non si ha un’altra possibilità di continuare a studiare, ed è per questo che molti giovani abbandonano la scuola.

Un’altra grande differenza è che nei Paesi Bassi c’è poca gerarchia. “Il mio direttore e il mio team leader sono solo miei colleghi. Siamo considerati uguali e trattati allo stesso modo. Posso chiamarli per nome. In Turchia, invece, bisogna rivolgersi a tutti con signore o signora. Non voglio più gerarchie in Turchia; vorrei cambiare questa situazione”.

C’è qualcosa che vorreste condividere?

“Vorrei dire che siamo tutte persone che possono vivere insieme, basta avere rispetto per gli altri. Bisogna trattare tutti con rispetto e creare un’atmosfera sicura e piacevole. Siamo venuti qui per la nostra libertà e l’Olanda ci ha dato molti diritti. Pertanto, dovete fare qualcosa per i Paesi Bassi; dovete usare le vostre capacità per aiutare qui, per integrarvi. Fare il primo passo è facile: salutare i vicini, ad esempio, o semplicemente chiacchierare con qualcuno ed essere gentili”.

Neslihan ha anche voluto ricordare a tutti che molte persone sono ancora minacciate in Turchia o dimenticate in prigione. Si può sempre fare qualcosa per loro, ad esempio condividendo qualcosa su Twitter o parlandone.

Translated by Matilde Ribetti from the original https://brokenchalk.org/story-of-neslihan-ozcan-sahin-after-all-her-struggle-a-refugee-teacher-begins-to-teach-again/

Neslihan Özcan Şahin’in Hikayesi: Verdiği bir çok mücadele sonunda mülteci öğretmenin yeniden öğretmenlik yapmaya başlaması

Written by Georgette Schönberger

Neslihan, kocası ve iki çocuğuyla yeni bir hayat kurmak için Hollanda’ya Türkiye’den gelen bir mülteci.

Neslihan, Ağustos 2018’de Türkiye’deki hayatını geride bırakarak Yunanistan’a göç etti. Hollanda’ya gelmeden önce orada üç ay geçirdi. Birkaç yıldır ailesiyle birlikte Amstelveen’de bir sosyal konutta yaşıyor. Ailesiyle birlikte 19 ay boyunca Hollanda genelinde farklı sığınmacı merkezlerinde yaşadı. Neslihan, “Hollanda’yı ortalama bir Hollandalı’dan daha iyi tanıyorum” diyor.

Neslihan Türkiye’de uzun süre kimya, fizik ve biyoloji öğretmeni olarak çalıştı. Hollanda’ya geldiğinde tekrar öğretmenlik yapmaya başlamak için çok hevesliydi. Neyse ki iş bulmak zor olmadı. “Statushouders voor de Klas projesi” yardımıyla Hollanda’daki okul sisteminin nasıl çalıştığı öğrendi ve bu da onun daha sonra stajyerlik yapmasına yardımcı oldu. Neslihan ayrıca Amsterdam’daki Apollo lisesinde teknik öğretim asistanı rolünde gönüllü olarak çalıştı. Aynı okulda kendini geliştirdi ve bir süre sonra haftada iki gün öğretmenlik yapmayı hak etti. Gelecek yıl sadece öğretmenlik yapacak ve artık asistan olarak çalışmayacak.

Neden o dönemde öğretmen olmaya karar verdiniz?

“Öğretmekten zevk alıyorum; bunu bir iş olarak görmüyorum çünkü bu benim bir tutkum.” Neslihan 18 yıldır öğretmenlik yapıyor ve hala bundan gerçekten memnun. Eğitimini tamamladıktan sonra hemen öğretmenliğe başladı. Bu üç konuda en yüksek notları aldığı ve eğlenceli bulduğu için kimya, fizik ve biyoloji öğretmeni olmayı seçti.

Neden Hollanda’ya gelmeye karar verdiniz?

“İnternette ve haberlerde okuduk ve Hollanda’da insanların özgür olduğunu ve fikirlerini paylaşabildiğini duyduk. Ne yazık ki, özgür olmadığınız ve istediğinizi söyleyemediğiniz Türkiye’de durum böyle değil. Çocuklar bile fikirlerini açıkladıkları için sık sık hapse girerler”. Bu nedenle Neslihan’ın abisi ve ablası da aileleriyle birlikte Hollanda’ya geldi. Neslihan ailesi ile her hafta görüşüyor.

Hollanda’ya geldiğinizde ne gibi zorluklarla karşılaştınız?

Neslihan siyasi bir mülteci ve görüşlerinden dolayı kendi ülkesinde terörist olarak görülüyordu. Tüm ailesiyle birlikte tekneyle Türkiye’den kaçmak zorunda kaldı. Hollanda’ya gelme yolculuğu yoğundu. Çok para ödemek ve insan kaçakçılarıyla pazarlık yapmak zorunda kaldı ki bu oldukça tehlikeli bir durumdu.

Ayrıca Hollandaca öğrenmek isteyen Neslihan için ilk başta bu oldukça zordu. O sırada uyum sağlamak zorunda olmadığı için, sığınmacı merkezinde kaldığı süre boyunca ücretsiz bir Hollandaca dil kursu alamamıştı. Ancak, sığınmacı merkezindeki arkadaşlarından ve gönüllülerden biraz Hollandaca öğrendi. Bunun için çok minnettar olduğunu ifade etti. Neslihan bütünleşmek ve asimile olmak istiyordu, bu yüzden dil anlayışı bunun gerçekleşmesi için bir temeldi. Uzun bir mücadeleden sonra nihayet bir kursa gidebileceği kadar borç para almayı başardı.

Arada sırada, özellikle ‘er’ ve zor bulduğu farklı edatlar olmak üzere, Hollandaca’da hala sorun yaşıyor. Ayrıca, bazı Hollandaca ifadeleri henüz anlamıyor, ancak zamanla daha iyi olacağına inanıyor.

Türk ve Hollanda okul sistemleri arasındaki farklar nelerdir?

“Bence çok fazla fark yok. Elbette bazı şeyler oldukça benzer. Örneğin, ergenlik çağındaki çocuklar genelde aynı şekilde davranırlar, ancak Hollanda’daki öğrenciler, farklı okul seviyeleri nedeniyle her zaman farklı yönlere devam etme şansına sahipler. Bu nedenle, Hollanda’daki sistem daha iyi çünkü bu şans mevcut.” Neslihan, Türkiye’de tek seviye olduğunu, her öğrencinin aynı konuları öğrenmesi ve aynı sınava girmesi gerektiğini anlatıyor. Dolayısıyla, bu da seviyeyi yükseltiyor, okumaya devam etmekten başka bir seçenek bırakmıyor, bu yüzden birçok genç okulu bırakıyor.

Bir başka büyük fark da Hollanda’da çok az hiyerarşi olmasıdır. “Müdürüm ve ekip liderim sadece benim meslektaşlarım. Aynı görüldüğümüz için aynı muameleyi görüyoruz. Onlara isimleriyle hitap edebiliyorum. Türkiye’de herkese bay veya bayan diye hitap etmek zorundasınız. Türkiye’de daha fazla hiyerarşi istemiyorum; bunu değiştirmek isterdim.”

Paylaşmak istediğiniz bir şey var mı?

“Hepimizin bir arada yaşayabiliriz, yeter ki birbirinize saygı duyalım. Herkese saygılı davrarak güvenli ve güzel bir atmosfer yaratmalısınız. Biz buraya özgürlüğümüz için geldik, Hollanda da bunu sağladı. Bize birçok hak verildi. Bu nedenle, Hollanda için bir şeyler yapmak, buradakilere yardım etmek, entegre olmak için becerilerinizi kullamak gerekli. Komşularınıza merhaba demek ya da sadece sohbet açmak ve kibar olmak gibi ilk adımları atmak kolaydır.”

Neslihan ayrıca Türkiye’de birçok kişinin hala tehdit altında olduğunu veya hapiste olduğunu herkese hatırlatmak istedi. Twitter’da paylaşım yapmak veya bu konularda konuşmak gibi her zaman bu insanlar için bir şeyler yapabilirsiniz.

Translated by Müge Çınar from the original https://brokenchalk.org/story-of-neslihan-ozcan-sahin-after-all-her-struggle-a-refugee-teacher-begins-to-teach-again/