میلک کیمازترکی سے تعلق رکنے ولا ایک پناہ گزین ہے اور اس وقت ایمسٹرڈیم کے ایک بین الاقوامی ہائی اسکول میں ریاضی کے استادنی کے طور پر کام کرتی ہے۔ اسکول میں وہ MAVO, HAVO اور VWO کےطلباء کو ڈچ میں ریاضی سکھاتی ہے۔
How did you end up in the Netherlands?
آپ نیدرلینڈ میں کیسے آئے؟
میلک اپنے شوہر کے ساتھ ترکی سے بھاگ گئی تہی اور ہالینڈ آنے سے پہلے، وہ تین سال تک عراق میں رہے، جہاں میلک نے ریاضی کے استادنی کے طور پر وظیفہ انجام دیا۔ جب میلک حاملہ ہوئیں، تو وہ جانتی تہی کہ ترکی واپس جانا اور عراق میں رہنا اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ وہ اپنی بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ پہلے انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں جا سکتے ہیں۔میلک نے بتایا کہ، “ہمارے پاس کسی یورپی ملک کا ویزا نہیں تھا اور نہ ہی امریکہ جانے کے لیے گرین کارڈ”۔ انٹرنیٹ پر راہ حل کی جانج پرتال میں کچھ وقت گزارنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ہالینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں پناہ گزینوں کو استقبال کیا جاتا ہے، جہاں انہیں مدد مل سکتی ہے اور جہاں وہ آزاد ہیں۔ میلک کاکہنا ہے،”آزادی میرے لیے بہت اہم ہے، اسی لیے ہم نیدرلینڈ آئے”۔ اب میلک اور اس کے شوہر پانچ سال سے ہالینڈ میں رہ رہے ہیں۔ “یہ بہت بڑا قدم تھا، اورشروع میں مجھے آراستہ ہونے میں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہالینڈ میں رہنے کا کیا مطلب ہے۔ میں ہالند کی زبان نہیں جانتی تھی اور نہ ہی ڈچ ثقافت کے بارے میں کچھ پتہ تھا”۔ میلک اور اس کے شوہر خود ھی ہالینڈ آئے تھےاور ہالینڈ میں ان کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا نہیں رہتاتھا۔
آپ ریاضی کے استاد نی کیوں بنے؟
“جب میں چھوٹی تھی تو ریاضی کی استانی بننا میرا خواب نہیں تھا۔لیکن بعدمیں مجھے انتخاب کرنا تھاکہ میں کس سمت جانا چاہتی ہوں۔ اورمیں جانتی تھی کہ مجھے ریاضی پسند ہے۔ میں ریاضی کو ایک قسم کے کھیل کے طور پر دیکھتی ہوں یا پھرایک پہیلی کی طرح جسے میں حل کرنا چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ، میں یہ بھی جانتی تھی کہ دوسرے لوگوں کو ریاضی پڑھانا مجھےپسند تھا۔ اکثر مجھے اپنے بھائیوں یا اپنے گھر والوں کو چیزیں سمجھانا پڑتی تھیں اور مجھے یہ کرنا پسند تھا۔ اس لیے ریاضی کی استانی بننے کا انتخاب ایک اچھا فیصلہ تھا۔”
آپ کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے؟
جب میلک اور اس کے شوہر نیدرلینڈ آئے تو سب کچھ شروع سے شروع کرنا پڑا۔ انہیں ڈچ زبان یا ثقافت کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا۔ ایک AZC واقع ایمسٹرڈیم میں میلک نے خود کو ڈچ زبان کی بنیادی باتیں ایک کتاب سے جو آنکہ دسترس میں تھی، سکھائی ۔ وہ دس مہینہ AZC میں اپنے شوہر اور اپنی نو زاد بیٹی کہ ساتھ رہی۔ اب وہ جنوب مشرقی ایمسٹرڈیم میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک گھر میں رہتی ہے۔ اپنے ڈچ کو بہتر بنانے کے لیے، اس نے ایمسٹرڈیم کی میونسپلٹی کی طرف سے پیش کردہ ایک مفت کورس کیا۔ اس کہ علاوہ اس نے Hogeschool van Amsterdam میں “Orientation Track Statusholders for the Classroom” (Oriëntatietraject Statushouders voor de Klas) بھی مکمل کیا۔ اس ٹریک کہ مدد سے نے نہ صرف اسے ڈچ زبان میں مہارت حاصل ہوی بلکہ اسے ڈچ کی تعلیمی نظام کے بارے میں بھی علم ہوا اورپر اسے سیکنڈری اسکول میں انٹرن شپ حاصل کرنے کا موقع ملا۔
اب وہ اسی اسکول میں ریاضی کی استانی کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکہنےاور سنے میں آسان لگتی ہے۔ میلک نے بتایا کہ تدریسی ملازمت تلاش کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل تھا۔ مثال کے طور پر، اس نے 40 سے زیادہ اسکولوں کے لیے درخواست دی جن میں سے صرف 5 اسکولوں نے جواب دیا۔ آخر میں، وہ دو اسکولوں میں سے انتخاب کر سکتی تھی۔ وہ بہت اداس تھی کہ کچھ اسکولوں نے بالکل جواب نہیں دیا تھا۔ “میں مختلف ہوں، میں سمجھتا ہوں، لیکن مجھے جواب کی توقع تھی ، خاص طور پر جب نیدرلینڈز میں اساتذہ کی کمی ہے۔”
میلک نے محسوس کیا کہ ڈچ لوگ پہلے اس پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ “وہ دوسرے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ وہ پہلے تو آپ پر یقین نہیں کرتے، لیکن ایک بار جب آپ ان کا اعتماد حاصل کر لیں تو سب اچھا ہے اور وہ بہت اچھے اور پیارے لوگ ہیں۔”
ترکی اور ڈچ کے تعلیمی نظام میں کیا فرق ہے؟
“ڈچ تعلیم ترکی سے تھوڑی مختلف ہے۔” مثال کے طور پر، میلک نے سمجھایا کہ ترکی میں اسکولوں کی بھی مختلف سطحیں ہیں۔ لیکن فرق انکہ عمروں کا ہے جس میں بچوں کی سطح تبدیل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ترکی میں ابتدائی اسکول بھی آٹھ سال کا ہے، لیکن ہالینڈ میں بچے کم عمر میں ہائی اسکول جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، میلک کو یہ لگتا ہے کہ ڈچ بچے جو ابھی ہائی اسکول شروع کر رہے ہیں ان میں تھوڑا سا بچکانہ گی ہیں۔ میلک نے جو دیکھا وہ یہ ہے کہ ڈچ بچے بہت زیادہ خود مختار ہیں۔ ‘یہاں کے بچے بہت زیادہ فعال ہیں۔ ترکی میں استاد کو 100 فیصد فعال ہونا ضروری ہے، اور طالب علم صرف اس کی پیروی کرتے ہیں جو کہا جاتا ہے. “ہالینڈ میں، بچے اسائنمنٹس آزادانہ طور پر انجام دیتے ہیں بغیریہ کہ استاد ہر چیز کی وضاحت کرے۔” ایک اور فرق یہ ہے کہ ہالینڈ میں بہت سے مختلف قسم کے اسکول ہیں، جیسے کہ سرکاری، نجی یا عیسائی اسکول۔ ترکی میں صرف ایک قسم کا اسکول ہے۔
مستقبل کو دیکھتے ہوئے۔
اگرچہ میلک کو ترکی میں اپنے خاندان اور دوستوں اور اپنی ثقافت کی کمی محسوس ہوتی ہے، پھر بھی وہ ہالینڈ آنے کے انتخاب سے خوش ہے۔ اس کے خاندان اور دوست وقتاً فوقتاً اس سے ملنے آتے ہیں لیکن وہ خود ترکی واپس نہیں جا سکتی۔ میلک لیے سب سے اہم چیز آزادی ہے جو اسے ہالینڈ میں حاصل ہے۔وہ دوسرے پناہ گزینوں کو بتانا چاہتی ہےکہ شروع میں ہالینڈ آنا اور یہاں استاد بننا ایک بہت مشکل مرحلہ ہے، لیکن آپ کو کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور ہمیشہ اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ یہ وقت کے ساتھ آسان اور آسان ہو جاتا ہے.
.
Written by Georgette Schönberger
Translated by Uzair Ahmad Saleem from [https://brokenchalk.org/interview-with-melek-kaymaz/]