Educational Challenges in Iran – Urdu Translation

ایران میں تعلیمی چیلنجز

 

تحریر: عزیر احمد سلیم
ترجمہ: مائدہ طیب

Photo by sin_drakshani on Unsplash

فارس کے زمانے سے لے کر آج تک ایران میں ثقافتی ورثہ اور تعلیمی فضیلت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاہم، ایران کو اس وقت تعلیم کے شعبے میں مختلف مسائل کا سامنا ہے جو اپنے شہریوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنے کی اس کی صلاحیت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ایران میں تقریباً 7 ملین بچے تعلیم تک رسائی سے محروم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 25 ملین لوگ ناخواندہ ہیں۔

غربت:

تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک غربت ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں اسکولوں تک رسائی، قابل اساتذہ اور نقل و حمل محدود ہے۔ پچھلے تین سالوں میں، کم طلباء کالج میں جا رہے ہیں۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق یہ کمی غربت، مفت تعلیم کی عدم موجودگی اور کالج کے طلباء کے لیے حکومتی تعاون میں کمی کی وجہ سے ہے۔ کالج کے طلباء کی کل تعداد تعلیمی سال 2014-2015 میں 4,811,581 سے کم ہوکر تعلیمی سال 2017-2018 میں 3,616,114 ہوگئی۔

صنفی عدم مساوات:

مزید برآں، ایران کا تعلیمی نظام اب بھی صنفی عدم مساوات کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پچھلی چند دہائیوں میں پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں داخلوں میں اضافہ ہوا ہے، اعلیٰ تعلیم میں اب بھی لڑکیوں کی نمائندگی کم ہے۔

عالمی بینک کے مطابق ایران میں بالغ لڑکیوں کی شرح خواندگی۸۵ فیصد ہے جبکہ بالغ لڑکوں کی شرح خواندگی ۹۲ فیصد ہے۔ بہت سے خاندان اب بھی اپنی بیٹیوں کی تعلیم کی نسبت ان کی کم عمری میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے، طالبات کو پہلی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کوپورا کرنے میں کافی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور سکولوں میں صنفی علیحد گی یعنی مخلوط تعلیم کا نہ ہونا، ان کی مزید تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے۔

مالیاتی مسائل:

ایران کے تعلیمی نظام کے لیے ایک اور خطرہ سرمائے کی کمی ہے۔ اس وجہ سے تربیت یافتہ اساتذہ میں کمی، ناکافی سہولیات اورازکار رفتہ آلاتٍ تعلیم ہے۔ بہت ساری تعلیمی عمارتیں غیر محفوظ ہیں اور نئےاداروں کے قیام کے لیے جگہیں دستیاب نہیں ہیں ۔

درحقیقت ایران کے ایک تہائی سکول اتنے کمزور ہیں کہ انہیں گرا کر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ تہران، رے اور تاجرش کی سٹی کونسل کے سربراہ محسن ہاشمی کا کہنا ہے کہ، “زلزلے کی بات دور، شدید طوفان کی صورت میں بھی تہران کے 700 سکول تباہ ہو جائیں گے۔”

تعلیمی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے حکومت کی کوششوں کے باوجود ایران کے تعلیمی اخراجات خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق ۲۰۲۰ میں جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر ایران کے تعلیمی اخراجات تین اعشاریہ آٹھ فیصد تھے، جو دیگر اعلیٰ اور متوسط ​​آمدنی والے ممالک میں تعلیم کے اوسط اخراجات سے بہت کم ہیں۔ جب کہ ایرانی آئین کہتا ہے کہ، “حکومت قوم کے تمام افراد کے لیے مفت ابتدائی اور ہائی سکول کی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے اور جب تک ملک خود کفیل نہیں ہو جاتا، سب کے لیے مفت اعلیٰ تعلیم کی سہولت فراہم کرے گی۔” اس کے برعکس، صدر روحانی نے گزشتہ چند سالوں میں دیہی علاقوں میں بہت سے سکولوں کو بند کرنے اور بجٹ میں کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔ علامہ یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسرکا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے تعلیم کے لیے مختص رقم، اس مقصد کے لئے اقوام متحدہ کی سفارشات سے بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ، وسائل کی کمی کی وجہ سے اسکول کا نظام ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی سے بھی بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی کمی کیے باعث اساتذہ کی تربیت میں بھی کمی آ چکی ہے، جس نے تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو محدود کر دیا ہے اور ایرانی طلباء کی ڈیجیٹل استعداد کے حصول میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

ڈیجیٹل عدم مساوات:

اس کے علاوہ، ڈیجیٹل عدم مساوات ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حالیہ برسوں میں طلبا و طالبات کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ ۲۰۱۷ کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ۲۸ فیصد ایرانیوں کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی نہیں تھی یا بہت کم تھی۔ جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی کے حامل صارفین میں سے ۸۰ فیصد شہروں میں اور محض ۲۰ فیسد دیہی علاقوں میں رہنے والے تھے۔۲۰۱۹ میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران، جب ایران میں وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے آن لائن تعلیم کو ترجیح دی گئی تو بڑی تعداد میں طلباء نے تعلیم چھوڑ دی۔ اس کی وجہ ان کی انٹرنیٹ کنکشن کے حصول میں درپیش مشکلات اور ان کے علاقے میں انٹرنیٹ تک محدود رسائی تھی۔

سیاسی مداخلت:

مزید برآں، ایران میں تعلیمی نظام پر حکومت کا بہت زیادہ اثر ہے، جس کے باعث تعلیمی نظام سیاست زدہ ہو چکا ہے، جس میں مخصوص نظریے ہی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ایرانی حکومت سکولوں اور یونیورسٹیوں میں استعمال ہونے والے نصاب، نصابی کتابوں اور تدریسی مواد کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے۔ اسکول کے نصاب کو اکثر حکومت کے سیاسی اور مذہبی نظریات سے جوڑا جاتا ہے، جس میں اسلامی اقدار، ایرانی ثقافت، اور تاریخ کے حکومتی تصور کو فروغ دینے پر زور دیا جاتا ہے۔

تعلیمی نظام پر ایرانی حکومت کا اثر کلاس روم میں پڑھائے جانے والے مواد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے اساتذہ اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کی بھرتی اور برطرفی، اور منتظمین کی تقرری بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ امتیازی بھرتی کے طریقوں اور ایسے افراد کے اخراج کی صورت میں نکل سکتا ہے جو حکومت کے نظریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں، جس سے تعلیمی نظام کا تناظر اور نظریات کا تنوع محدود ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، ایرانی حکومت تعلیمی اداروں کے اندر تعلیمی تحقیق، اشاعت اور سرگرمیوں کواپنے قابومیں رکھنے کے لئے ان کی کڑی نگرانی کرتی ہے۔

اسکالرز، ماہرین تعلیم، اور طلباء جو مخالف نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں یا حکومت کے بیانیے کو کمزور کرنے کے لیے تنقیدی سوچ میں رکھتے ہیں، انہیں پابندی، دھمکی اور یہاں تک کہ ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ اساتذہ اور طلباء میں خوف اور خود سنسرشپ پیدا کرتا ہے، اور تعلیمی آزادی، خیالات، اور آراء کے اشتراک کو محدود کردیتا ہے۔ نتیجتاً، ایران میں تعلیم کی سیاست طلباء کی تنقیدی سوچ، سوال کرنے اور متبادل نقطہ نظر پر غور کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس سے ان کی مختلف نقطہ ہائے نظر سے واقفیت، ان کی تعلیمی آزادی اور تنقیدی سوچ کی استعداد کے حصول کی صلاحیت محدود ہوتی ہے، جو شخصیت کی تعمیر، سماجی ترقی، اور ایک کھلے اور جامع فکری ماحول کے فروغ کے لیے ضروری ہیں۔

ٹیلنٹ کی کمی:

آخر میں برین ڈرین کا ذکر، جو ایک اور تعلیمی چیلنج ہے، جس کا ایران اس وقت سامنا کر رہا ہے۔ بہت سے باصلاحیت اور تعلیم یافتہ ایرانی بہتر مستقبل کے امکانات اور زیادہ آمدنی کے لیے اپنا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کے مطابق، جس نے 61 ممالک کا مطالعہ کیا ہے، ایران میں برین ڈرین کی شرح سب سے زیادہ ہے، جہاں ہر سال 150,000 تعلیم یافتہ ایرانی اپنا آبائی ملک چھوڑجاتے ہیں۔ برین ڈرین سے سالانہ معاشی نقصان کا تخمینہ 50 بلین ڈالر یا اس سےکچھ زیادہ ہے۔ یہ برین ڈرین ملک کو اس کے روشن دماغوں سے محروم کر رحا ہے، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کے امکانات کم ہو جاتے ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایران کے تعلیمی نظام میں بنیادی اصلاحات اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو ترجیح دیتے ہوئے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے فنڈز میں اضافہ کرے، قابل اساتذہ کی خدمات کے ھصول اور ان کی تربیت کا اہتمام کرے، اور نصاب میں جدت لائے تاکہ طلبا میں تنقیدی سوچ، مسائل کے حل کا جذبہ اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہو سکیں۔ مزید برآں، حکومت کو خواتین اور طالبات کو درپیش تعلیمی چیلنجوں سے نمٹنا چاہیے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، اور تعلیم میں صنفی مساوات کو فروغ دینا چاہیے۔

ایران کے تعلیمی نظام کی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اسکولوں اور اداروں کو جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کرے اور اساتذہ کی تربیت کے لئے وسائل مہیا کرے تاکہ ٹیکنالوجی ک کلاس روم میں کامیابی سے استعمال کیا جا سکے۔ اس سے نہ صرف طلبا میں ڈیجیٹل صلاحیتیں پیدا کرنے میں مدد ملے گی بلکه انہیں اکیسویں صدی کی افرادی قوت کی مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جاسکے گا۔ اس سے ایران اپنی مشکلات پر قابو پا کر مزید خوشحال ہو سکتا ہے اورایک کامیاب مستقبل بنا سکتا ہے۔

 


حوالہ جات:

https://www.britannica.com/place/Iran/Education

https://data.worldbank.org/indicator/SE.ADT.LITR.MA.ZS?locations=IR

https://data.worldbank.org/indicator/SE.XPD.TOTL.GD.ZS?locations=IR

https://iranfocus.com/life-in-iran/33917-the-iranian-education-system-in-tatters-due-to-poverty/

https://iran-hrm.com/2019/09/22/repressive-state-and-low-quality-of-education-in-iran/

https://observers.france24.com/en/20200421-iran-internet-covid19-distance-learning-poverty

http://www.us-iran.org/resources/2016/10/10/education

https://shelbycearley.files.wordpress.com/2010/06/iran-education.pdf

No comment yet, add your voice below!


Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *