Educational Challenges in Azerbaijan – Urdu Translation

Educational Challenges in Azerbaijan

آذربائیجان میں تعلیمی چیلنجز

 

تحریر: زینت اسدوا

مترجم: ماہ نور علی

: آذربائیجان میں غیر شفافیت: تعلیمی مشکلات کی رہنمائی

آذربائیجان، قفقاز کے علاقے میں واقع ایک ملک ہے، اور 1991 میں اپنی آزادی تک یہ سوویت یونین کے زیر حکومت تھا۔ آذربائیجان کے قدرتی وسائل کی وسعت کے باوجود، اس کا بنیادی ڈھانچہ متعدد شعبوں کو متاثر کرتا ہے، جن میں خاص طور پر تعلیمی شعبہ شامل ہے۔

اگرچہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم مفت ہے، مگر زیادہ اعلی تعلیم کا انحصار خاندان کی مالی حالت پر ہوتا ہے۔ [1] ایک عام آذربائیجانی خاندان کی سالانہ آمدنی 4250 منات (2500$) ہے، جو کہ عام خاندانوں کے تعلیمی بجٹ کو متاثر کرتی ہے۔ نجی اساتذہ کی خدمات حاصل کرنا اور اسکول کے مواد کی ادائیگی کا خرچ ان کی استطاعت سے زیادہ ہوتا ہے۔ اعلی تعلیمی ادارے اکثر امیر پس منظر کے طلبہ کو ترجیح دیتے ہیں اور دیہی یا کم آمدنی والے خاندانوں کے طلبہ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ [2]

جہاں تک تعلیمی نظام کے معیار کا تعلق ہے، ثانوی اسکولز طلبہ کو یونیورسٹی کے داخلہ امتحانات کے لیے مناسب تیاری فراہم کرنے میں ناکام ہیں، جس کی وجہ سے کئی طلبہ کمزور کارکردگی کی وجہ سے ان امتحانات میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ [3] تعلیم کے اس خراب نظام کے پیش نظر، امیر پس منظر کے والدین نجی اساتذہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے سرکاری اشرافیہ ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرنے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بچے امریکہ، کینیڈا اور مغربی یورپی ممالک جیسے ملکوں میں بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ وہاں معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔ جو لوگ اس استطاعت سے محروم ہوتے ہیں، وہ ناکافی تعلیمی سطح کے ساتھ پیچھے رہ جاتے ہیں۔

تعلیمی مواد جیسے کتابیں، مضامین، جرنل وغیرہ تک رسائی بہت کم ہوتی ہے، خاص طور پر وہ مواد جو آذربائیجانی زبان میں ہو۔ یونیورسٹی کی لائبریریاں تعلیمی مقاصد کے لیے ضروری وسائل سے محروم ہیں اور طلبہ ان مواد کے پرانے اور آج کے دور کے لحاظ سے غیر متعلقہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔

تعلیمی مواد اور وسائل کی کمی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی جانب سے علمی تحقیق اور تراجم کے لیے ناکافی معاونت ہے۔ تعلیمی شعبے کی ترقی کے لیے بجٹ کی تجاویز اور علمی تحقیق کے لیے مالی معاونت کی کمی ملک کو ذہنی قلت میں مبتلا کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اکثر اوقات ماہرین ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں جہاں انہیں تحقیق کے لیے بہتر مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔

آذربائیجان میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم کو اپنے نظام میں نمایاں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ماسٹرز کی ڈگریوں کی تعلیم کو مزید پیشہ ورانہ اور خصوصی بنانے کے لیے کافی ترقی کی ضرورت ہے۔ ایسٹ ٹینیسی اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس رچرڈ ڈی کورٹم کے مطابق، “آذربائیجان میں ماسٹرز کے طلبہ کو عام طور پر وہی کورس، وہی انسٹرکٹر، وہی کتاب، وہی لیکچر مواد، اور وہی ٹیسٹ دوبارہ لینے پڑتے ہیں جو انہوں نے انڈر گریجویٹ کے دوران لیے تھے۔” [4]

آذربائیجان میں اس وقت موجود ایک اور بڑا مسئلہ رشوت ہے۔ اگرچہ آئین میں یہ غیر قانونی ہے، لیکن آبادی کے لیے بقا کے لیے ایک معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ عوام کو تعلیم، صحت، سرکاری خدمات، ملازمتوں اور دیگر شعبوں تک رسائی کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ ان اداروں کے سربراہان ان رشوتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور عوام کو ایسی صورتحال میں ڈالتے ہیں کہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے انہیں پیسے دینے پڑتے ہیں۔

یونیسکو انسٹیٹیوٹ فار سٹیٹسٹکس کے مطابق، آذربائیجان میں دوسرے قفقاز ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں ثانوی (اعلیٰ) تعلیم کے داخلے کی شرح سب سے کم ہے، کیونکہ 77% آذربائیجانی جو اسکول سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، وہ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لیتے۔ یہ ممکنہ طور پر “غلط طریقے سے تشکیل دیے گئے اور انتہائی مرکزی ریاستی کوٹا مختص کرنے کے نظام” کی وجہ سے ہوتا ہے۔ [5] نیچے دیا گیا ٹیبل 1 2010 سے 2014 تک آذربائیجان، آرمینیا، جارجیا، اور قازقستان میں یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست دینے والے طلبہ کا تناسب دکھاتا ہے۔[6]

Educational Challenges in Azerbaijan

Sources:

[1] Mammadova, S., Guliyev, F., Wallwork, L. and Azimli, N., 2016. Human Capital Development in Azerbaijan. Caucasus Analytical Digest, (90), pp. 8,. Available at: <https://www.academia.edu/30431942/The_Quality_of_Education_in_Azerbaijan_Problems_and_Prospects>

[2] Mammadova, S., Guliyev, F., Wallwork, L. and Azimli, N., 2016. Human Capital Development in Azerbaijan. Caucasus Analytical Digest, (90), pp.8,. Available at: <https://www.academia.edu/30431942/The_Quality_of_Education_in_Azerbaijan_Problems_and_Prospects>

[3] Mammadova, S., Guliyev, F., Wallwork, L. and Azimli, N., 2016. Human Capital Development in Azerbaijan. Caucasus Analytical Digest, (90), pp. 7,. Available at: <https://www.academia.edu/30431942/The_Quality_of_Education_in_Azerbaijan_Problems_and_Prospects>

[4] Richard D. Kortum, “Emerging Higher Education in Azerbaijan”, Journal of Azerbaijani Studies, 12, 2009.

[5] Mammadova, S., Guliyev, F., Wallwork, L. and Azimli, N., 2016. Human Capital Development in Azerbaijan. Caucasus Analytical Digest, (90), pp. 7,. Available at: <https://www.academia.edu/30431942/The_Quality_of_Education_in_Azerbaijan_Problems_and_Prospects>

[6] Souce: Mammadova, S., Guliyev, F., Wallwork, L. and Azimli, N., 2016. Human Capital Development in Azerbaijan. Caucasus Analytical Digest, (90), pp. 8,. Available at: <https://www.academia.edu/30431942/The_Quality_of_Education_in_Azerbaijan_Problems_and_Prospects>

Cover Image by OpenClipart-Vectors from Pixabay

Educational Challenges in Sri Lanka – Urdu Translation

سری لنکا میں تعلیمی چیلنجز

 

تحریر: سارا احمد

ترجمہ: ماہ نور علی

تعارف

تعلیم کسی بھی ملک کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی کی بنیاد ہے۔ 2020 میں سری لنکا کی خواندگی کی شرح 92.38% تھی، لیکن اس کے باوجود ملک کو تعلیمی شعبے میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس مضمون میں سری لنکا کے مفت تعلیمی نظام کے منفی پہلوؤں اور اس نظام کی لیبر مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ نہ ہونے پر بات کی جائے گی۔

سری لنکا کے مفت تعلیمی نظام کے منفی پہلو

نائنٹین نائنٹی فورسے سری لنکا کی حکومت نے بغیر کسی امتیاز کے عوام کے لیے مفت تعلیمی نظام کا آغاز کیا۔ ریاست ابتدائی، ثانوی، اور یونیورسٹی سطح پر مفت تعلیم فراہم کرتی ہے، اور پانچ سے سولہ سال کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس نظام نے سری لنکا کو خواندگی، صنفی مساوات، اور اسکول میں داخلے کی شرح کے لحاظ سے جنوبی ایشیا میں نمایاں مقام دلانے میں مدد دی۔ تاہم، اس نظام کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ترقی دینے میں ناکامی پر تنقید کا سامنا ہے۔

سری لنکن معاشرہ تعلیم پر زیادہ زور دیتا ہے اور تفریح یا غیر ضروری اخراجات پر کم توجہ دیتا ہے۔ اس وجہ سے والدین اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ زیادہ تر والدین کا خواب ہوتا ہے کہ ان کے بچے کسی سرکاری یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں۔ تاہم، محکمہ مردم شماری اور شماریات کے مطابق ہر سال تقریباً 300,000 طلباء اعلیٰ سطح کے امتحان میں شرکت کرتے ہیں، لیکن ان میں سے صرف 60% یونیورسٹی کے داخلے کے اہل ہوتے ہیں۔ ان اہل طلباء میں سے بھی صرف 15% کو ہی سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلہ ملتا ہے، اور باقی 85% طلباء کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔

اگرچہ مفت تعلیم کا نظام اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے تعلیم پر ناکافی اخراجات کی وجہ سے تعلیمی معیار میں کمی آئی ہے۔ نتیجتاً، کچھ شعبوں میں نجی یونیورسٹیاں قائم کرنے کا مطالبہ اور دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تاہم، ریاستی یونیورسٹی کے طلباء اور سماجی تنظیموں کی طرف سے نجی یونیورسٹیوں کے قیام کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت یونیورسٹیوں میں داخلے کی سالانہ تعداد میں اضافہ کرے اور ان اداروں کے لیے مزید وسائل مختص کرے۔

وسائل کی کمی کے باعث کچھ امتحانات انتہائی مسابقتی ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، پانچویں جماعت کا وظیفہ امتحان طلباء کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے طلباء کو اچھے اسکول اور وظائف ملتے ہیں۔ والدین بچوں پر امتحان میں کامیابی کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں، لیکن کم عمری میں اس قسم کے دباؤ کا طلباء کی ذہنی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔

مفت تعلیمی نظام کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس نصاب، تدریسی طریقوں، اور کورسز کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے درکار وسائل نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں معیاری اور مفت تعلیم کے درمیان خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ بہتر منصوبہ بندی، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اور اضافی فنڈز تعلیمی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں

معیاری تعلیم تک رسائی میں تفاوت

اگرچہ سری لنکا نے خواندگی کی بلند سطح حاصل کی ہے، لیکن معیاری تعلیمی خدمات فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ سری لنکا ریاضی اور سائنس کی تعلیم اور اسکولوں میں انٹرنیٹ تک رسائی کے معاملے میں پیچھے ہے۔ تعلیمی نظام کا زیادہ تر زور بنیادی تعلیم پر ہے، جبکہ اعلیٰ تعلیم اور یونیورسٹیوں پر کم توجہ دی گئی ہے۔

معاشی ترقی اور عالمی منڈی میں مسابقت کے لیے سری لنکا کو آئی ٹی کی تعلیم، جدید تدریسی طریقوں، اور ریاضی و سائنس کی بہتر تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔

بچوں کی انفارمیشن ٹیکنالوجی (ICT) تک رسائی بہت محدود ہے، اور زیادہ تر طلباء اور اساتذہ کو کمپیوٹر کے استعمال میں مہارت حاصل نہیں۔ حتیٰ کہ بڑے پبلک اسکولوں میں بھی ایک کمپیوٹر کے لیے 100 سے زیادہ طلباء موجود ہوتے ہیں۔ لیکن کمپیوٹر کی موجودگی کافی نہیں، بلکہ ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو کمپیوٹر کے استعمال میں ماہر ہوں اور اس مہارت کو تدریسی عمل کا حصہ بنائیں۔

تعلیمی نظام اور مزدور منڈی کی ضروریات میں ہم آہنگی کا فقدان

سری لنکا کا تعلیمی نظام طلباء کو زیادہ تر علمی علم فراہم کرتا ہے، لیکن عملی مہارتوں پر کم زور دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے، طلباء نظریاتی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود پیشہ ورانہ میدان میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتے۔ یہ مسئلہ مزدور منڈی میں عملی اور نظریاتی علم کے درمیان خلا پیدا کرتا ہے۔

کووڈ-19 کا ردعمل

سری لنکا کا سیاحت پر انحصار ہونے کی وجہ سے کووڈ-19 کے تیز پھیلاؤ کا خطرہ زیادہ تھا۔ تعلیمی شعبے میں ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ فاصلاتی تعلیم کے لیے یکساں سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ مختلف علاقوں کے بچوں کو لیپ ٹاپ، موبائل فونز اور انٹرنیٹ تک رسائی میں مشکلات کا سامنا تھا، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔

اساتذہ کو بھی فاصلاتی تعلیم کے لیے مناسب تربیت نہیں دی گئی تھی، اور انہیں خود سے تدریسی طریقے سیکھنے پڑے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق، تعلیمی شعبے میں ایک بڑی کمی مانیٹرنگ کے مؤثر نظام کی غیر موجودگی تھی، جو کووڈ سے پہلے بھی مسئلہ تھا۔ یونیسکو نے سفارش کی کہ سری لنکا میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک مؤثر مانیٹرنگ نظام نافذ کیا جائے۔

نتیجہ

سری لنکا میں مفت تعلیم کی وجہ سے خواندگی کی شرح بلند ہے، لیکن تعلیمی نظام میں مقابلے کی فضا اور والدین کا دباؤ طلباء کی جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ پالیسی سازوں کو طلباء کی صحت کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے اور نصابی تعلیم کے بجائے عملی سرگرمیوں پر مبنی تعلیم کو فروغ دینا چاہیے تاکہ تعلیمی نظام کو مزدور منڈی کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور سری لنکا کو بھی جدید ٹیکنالوجی اور تعلیمی سہولیات کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل رہنا ہوگا۔

References

Educational Challenges in Bangladesh: Consequences and Future Trends of Child Labor – Urdu Translation

بنگلہ دیش میں تعلیمی چیلنجز: چائلڈ لیبر کے نتائج اور مستقبل کے رجحانات

تحریر: اینا کورڈیش

ترجمہ: ماہ نور علی

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش دنیا میں ریڈی میڈ گارمنٹس کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ہے، جس کا 2020 میں عالمی گارمنٹس برآمدات میں تقریباً 6.4 فیصد حصہ تھا۔ تاہم، یہ اقتصادی کامیابی سنگین قیمت پر حاصل کی گئی ہے کیونکہ 5 سے 17 سال کی عمر کے بچے اکثر بنگلہ دیشی گارمنٹس انڈسٹری میں غیر قانونی طور پر ملازمت کرتے ہیں۔ یہ غیر اخلاقی عمل نہ صرف انہیں تعلیم سے محروم کرتا ہے بلکہ ان کے مستقبل کے مواقع کو بھی محدود کر دیتا ہے۔ بنیادی تعلیم تک رسائی کے بغیر، یہ بچے فیکٹریوں میں کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور انہیں وہ مواقع نہیں ملتے جو مستقبل میں بہتر اجرت والی ملازمتوں کا باعث بن سکیں۔ اس کے نتیجے میں، وہ غربت اور کم اجرت کے کاموں کے ایک ظالمانہ دائرے میں پھنس جاتے ہیں، جس سے چائلڈ لیبر کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ معیاری تعلیم کی عدم موجودگی ان بچوں کو ان کی صلاحیتوں سے محروم کرتی ہے اور غیر قانونی اور جسمانی طور پر مشقت والے کاموں سے نکلنے کے ان کے مواقع کو کم کر دیتی ہے۔

بطور ذمہ دار صارفین، یہ ضروری ہے کہ ہم ان کپڑوں کی پوری سپلائی چین پر غور کریں جو ہم خریدتے ہیں، اور اس بات پر غور کریں کہ آیا ہمارے خریداری کے فیصلوں کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آیا ٹی شرٹ اخلاقی طور پر تیار کی گئی ہے اور اس کی تیاری کے کسی مرحلے میں بچوں کی مزدوری کا استعمال تو نہیں ہوا۔ ان سوالات پر غور کرنا بنگلہ دیش کے سینکڑوں بچوں کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنے اور غربت کے چنگل سے نکلنے کا موقع فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

اس مضمون کا مقصد بنگلہ دیش میں تعلیمی حصول کے مسئلے پر شعور بیدار کرنا ہے، جس کو چائلڈ لیبر کی موجودگی اور چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے حکومتی پالیسیوں کی کمی نے مزید بڑھا دیا ہے۔

بنگلہ دیش میں غربت کی مختصر تاریخ

انیس سو اکہتر 1971 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد، بنگلہ دیش کو ایک بڑا چیلنج درپیش تھا کیونکہ اس کی 80% آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ تاہم، سالوں کے دوران حکومت نے غربت کے خاتمے کو اپنی ترقیاتی حکمت عملی میں ایک اہم ترجیح بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غربت کی شرح 80% سے کم ہو کر 24.3% تک پہنچ گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بھی بنگلہ دیش کی تقریباً 35 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں (یونیسکو، 2009)۔

حکومت کی غربت کے خاتمے کی کوششوں کو مستحکم اقتصادی ترقی کی حمایت حاصل ہوئی، جو جزوی طور پر صحت مند میکرو اکنامک پالیسیوں اور تیار شدہ ملبوسات کی برآمدات میں اضافے سے آئی۔ نتیجتاً، مجموعی طور پر غربت کی شرح 2016 میں 13.47% سے کم ہو کر 2022 میں 10.44% ہو گئی (ڈھاکہ ٹریبون، 2022)۔

ان کامیابیوں کے باوجود، حالیہ رجحانات ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں غربت میں کمی کی شرح سست ہو رہی ہے۔ مزید برآں، غربت کے خاتمے کے اقدامات کا اثر دیہی اور شہری علاقوں میں یکساں نہیں رہا، کیونکہ ملک تیزی سے شہری بن رہا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حالانکہ غربت میں کمی کی کوششوں میں پیش رفت ہوئی ہے، مختلف علاقوں میں مساوی غربت میں کمی کو یقینی بنانے کے لئے اب بھی چیلنجز موجود ہیں۔

اگرچہ بنگلہ دیش نے تیز اقتصادی ترقی کا تجربہ کیا ہے اور اسے دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، مگر آمدنی کی عدم مساوات ایک اہم اور فوری مسئلہ ہے۔ درحقیقت، بنگلہ دیش میں آمدنی کی عدم مساوات بے مثال سطحوں تک پہنچ چکی ہے جو 1972 کے بعد کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ تیار شدہ ملبوسات کی برآمدات کی صنعت کی ترقی کے باوجود، اس اقتصادی شعبے کے فوائد یکساں طور پر تقسیم نہیں ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی ترقی کے انڈیکس میں بنگلہ دیش 189 ممالک میں 133 نمبر پر آ گیا ہے۔

آمدنی کی عدم مساوات کا ایک واضح اشارہ نچلے 40% آبادی اور امیر ترین 10% کے درمیان آمدنی کے حصص میں تضاد ہے۔ نچلے 40% کی آمدنی کا حصہ صرف 21% ہے، جبکہ امیر ترین 10% 27% کا حصہ حاصل کرتے ہیں، جو دولت کی تقسیم میں شدید فرق کو ظاہر کرتا ہے (ورلڈ بینک، 2023)۔ آمدنی کی تقسیم میں یہ تفاوت بنگلہ دیش میں آمدنی کی عدم مساوات کو حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے، کیونکہ یہ ملک کی ترقی کو شامل اور منصفانہ بنانے میں چیلنجز پیش کرتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو اقتصادی پالیسیوں، سماجی فلاحی پروگراموں، اور مخصوص مداخلتوں جیسے عوامل کو مدنظر رکھے تاکہ اقتصادی ترقی کے فوائد کو زیادہ وسیع پیمانے پر تمام طبقوں میں تقسیم کیا جا سکے۔۔

بنگلہ دیش میں چائلڈ لیبر

بنبنگلہ دیش میں پائی جانے والی اندرونی عدم مساوات اور آمدنی میں فرق کا بچوں کی تعلیمی کامیابی پر واضح اثر پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے، بنگلہ دیش کے متعدد حصوں میں چائلڈ لیبر عام ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں غربت کی شرح زیادہ ہے اور تعلیم تک رسائی محدود ہے۔ چٹگانگ، راجشاہی، اور سلہٹ جیسے اضلاع میں خاص طور پر چائلڈ لیبر کے واقعات زیادہ ہیں، کیونکہ یہ علاقے بنگلہ دیش کے دیہی کناروں میں واقع ہیں، جو ملک کے اندر موجود عدم مساوات کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس عدم مساوات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت کا بنگلہ دیشی بچوں پر سنگین اثر پڑتا ہے، جنہیں غربت کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر قانونی ملازمتوں میں مصروف ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ تقریباً ہر پانچ میں سے تین بچے زرعی شعبے میں کام کرتے ہیں، جبکہ 14.7% بچے صنعتی شعبے میں کام کرتے ہیں، اور باقی 23.3% بچے خدمات کے شعبے میں کام کرتے ہیں (گلوبل پیپل اسٹریٹیجسٹ، 2021)۔ اگرچہ بنگلہ دیش نے 2022 کے شروع میں بین الاقوامی محنت تنظیم (ILO) کے کنونشن کی توثیق کی تھی، جس میں ملازمت کے لیے کم سے کم عمر کو آرٹیکل 138 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، پھر بھی بنگلہ دیش میں بچے بدترین چائلڈ لیبر کی شکلوں کا سامنا کرتے ہیں، بشمول تجارتی جنسی استحصال اور زبردستی مشقت جیسے مچھلی خشک کرنے اور اینٹوں کی پیداوار کے کام۔

ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا محنت قانون غیر رسمی شعبے پر لاگو نہیں ہوتا، جہاں بنگلہ دیش میں زیادہ تر چائلڈ لیبر ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں میں بچوں کے محنت کشوں کے ساتھ تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں گھریلو کام بھی شامل ہے۔ 2018 میں بنگلہ دیش میں 400,000 سے زیادہ بچے گھریلو کام میں مصروف تھے، اور لڑکیاں اکثر اپنے مالکان کے ہاتھوں بدسلوکی کا شکار ہوئیں۔ اس کے علاوہ، رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ جنوری سے نومبر 2012 تک 28 بچوں کو گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا (گلوبل پیپل اسٹریٹیجسٹ، 2021)۔

یہ بچے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے محض بقا کی ضرورت کے تحت رسمی اور غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے دوبارہ پڑھائی میں واپس آنے کا امکان نہیں ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ نے یہ انکشاف کیا کہ وہ بچے جو کام کرنے کے لیے اسکول چھوڑ چکے ہیں اور عمر کے 14 سال سے کم ہیں، اوسطاً 64 گھنٹے فی ہفتہ کام کرتے ہیں۔ اس تعداد کو تناظر میں رکھتے ہوئے، یورپی محنت کے قوانین ہفتے میں 48 گھنٹے کام کرنے کی حد رکھتے ہیں، جس میں اوور ٹائم شامل ہے (یونیسیف، 2021)۔

موجودہ تعلیمی منظرنامہ

بنگلہ دیش میں تعلیمی حصول کا مسئلہ نمایاں طور پر عدم مساوات کو ظاہر کرتا ہے، جس کی وجہ ملک میں موجود ساختیاتی عدم مساوات اور تعلیمی شعبے کی حکمرانی میں کمزوریاں ہیں۔

اسکول میں شرکت کی شرح بھی تفاوت کو اجاگر کرتی ہے، جہاں 10% بچوں کی رسمی پرائمری اسکول عمر کے باوجود اسکول نہیں جاتے۔ بنگلہ دیش میں پرائمری اسکول کی عمر کے بچوں میں سب سے بڑی تفاوت غریب اور امیر بچوں کے درمیان دیکھنے کو ملتی ہے، جس کا تعلق ملک میں گھریلو سطح پر موجود وسیع تر عدم مساوات سے ہے۔ اس تفاوت کی تائید 2019 کی یونیسیف کی رپورٹ سے ہوتی ہے جس میں بتایا گیا کہ امیر بچوں کے لیے اوپر ثانوی اسکول مکمل کرنے کی شرح 50% ہے جبکہ غریب بچوں کے لیے یہ شرح صرف 12% ہے (یونیسیف، 2019)۔

بنگلہ دیشی حکومت نے پرائمری سطح پر تعلیم کی عدم مساوات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے لیے غریب بچوں کے لیے مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام متعارف کرایا گیا ہے، جو دیہی علاقوں کے 40% طلباء کو کور کرتا ہے۔ تاہم، یہ پروگرام غریب بچوں کے ایک بڑے حصے کو کور نہیں کرتا، حالانکہ ان کی غربت کی سطح زیادہ ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے پرائمری اسکول میں داخلہ کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس میں 7.8 ملین بچوں کو 1 ڈالر فی بچہ وظیفہ مل رہا ہے۔

تاہم، غیر غریبوں کو ترجیح دینے والے متعصبانہ فیصلوں کی وجہ سے حکومت کی تعلیمی اخراجات پر مسلسل خرچ غیر متناسب طور پر مختص کیا جاتا ہے، جس میں 68% حکومت کے کل اخراجات غیر غریبوں پر خرچ ہوتے ہیں، حالانکہ یہ گروہ پرائمری اسکول کی عمر کے بچوں کی کل تعداد کا صرف 50% ہیں (ورلڈ بینک، 2018)۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ حالانکہ حکومت کے پاس بنگلہ دیش میں تعلیمی حصول کو بہتر بنانے کی نیت ہو سکتی ہے، حقیقت میں ایک مختلف تصویر سامنے آتی ہے، جہاں دیہی بچے قومی تعلیمی حکمرانی کے حوالے سے مسلسل مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔۔

نتیجہ

مختصر یہ کہ، معیاری تعلیم غربت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ بچوں کو بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ بچوں کو بچوں کی مزدوری سے دور کرنے کے لیے، خاندانوں کی غربت کو کم کرنے پر زور دینا ضروری ہے۔ صرف معیاری تعلیمی حصول ہی ہر بچے کے لیے دستیاب ہو گا، چاہے اس کا سماجی و اقتصادی پس منظر کچھ بھی ہو، تو بنگلہ دیش کی آنے والی نسل حکومت کے امدادی پروگرامز کے تحت ترقی کر سکے گی۔ بنگلہ دیش کی حکومت کا بنیادی مقصد بچوں کو بچوں کی مزدوری کے نقصان دہ اثرات سے بچانا اور ان کی معیاری تعلیم کو یقینی بنانا ہونا چاہیے۔

تعلیمی حصول میں عدم مساوات کو کم کرنے کا پہلا حل حکومت کی پالیسیوں کو مزید وسیع بنانا ہے تاکہ محروم طبقات کی مالی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایسی مناسب میکرو اقتصادی پالیسی اختیار کی جائے جو تعلیمی مساوات کو ترجیح دے۔ تعلیمی وسائل کی تقسیم میں مزید شفافیت حکومت بنگلہ دیش کو ایک زیادہ فلاحی نقطہ نظر اختیار کرنے پر مجبور کرے گی۔ وسائل کی اس نئی تقسیم سے نرم انفراسٹرکچر پر زیادہ توجہ دی جائے گی جیسے اسکولوں میں اساتذہ کی مناسب تعداد کی بھرتی۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک اضافی طریقہ یہ ہو گا کہ حکومت بنگلہ دیش معیاری تعلیم کی اہمیت کے بارے میں مؤثر طور پر آگاہی پھیلائے۔ یہ آگاہی مہم نہ صرف شہری علاقوں کو نشانہ بنائے، بلکہ دیہی علاقوں پر بھی توجہ دے جہاں غربت کی شرح خاص طور پر زیادہ ہے۔

مزید برآں، آگاہی بڑھانے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کو تعلیم کے بارے میں معلومات تک رسائی فراہم کرنے کے لیے ضروری انفراسٹرکچر فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں غربت کی جڑ وجوہات کو حل کیا جائے تاکہ ایسا ماحول پیدا کیا جا سکے جہاں بچے مزدوری کرنے پر مجبور نہ ہوں اور اس کے بجائے وہ تعلیمی مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں اور ایک معمول کی بچپن کا تجربہ کر سکیں۔

یہ یقینی بنانا کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم اور محفوظ پرورش کا موقع ملے، سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

References

UNESCO. 2009. “Governance and Education Inequality in Bangladesh.” Accessed April 16, 2023. https://unesdoc.unesco.org/ark:/48223/pf0000180086/PDF/180086eng.pdf.multi#.

UNICEF. 2021. “The future of 37 million children in Bangladesh is at risk with their education severely affected by the COVID-10 pandemic.” Accessed April 14, 2023. https://www.unicef.org/bangladesh/en/press-releases/future-37-million-children-bangladesh-risk-their-education-severely-affected-covid.

UNICEF. n.d. “The Challenge.” Accessed April 2023. https://www.unicef.org/bangladesh/en/education.

Global People Strategist. 2021. “Facts About Child Labor in Bangladesh.” Accessed April 13 2023. https://www.globalpeoplestrategist.com/title-facts-about-child-labor-in-bangladesh/.

Hosen, Aoulad, S.M. Mujahidul Islam, and Sogir Khandoker. 2010. “Child Labor and Child Education in Bangladesh: Issues, Consequences and Involvements.” International Business Research Issues 3, no. 2: 1-8.

Dhaka Tribune. 2022. “Report: 35m Bangladeshis still live below poverty line.” Accessed April 13, 2023. https://www.dhakatribune.com/business/2023/01/22/report-35m-bangladeshis-still-live-below-poverty-line.

World Bank. 2023. “Poverty & Equity Brief.” Accessed April 10, 2023. https://databankfiles.worldbank.org/public/ddpext_download/poverty/987B9C90-CB9F-4D93-AE8C-750588BF00QA/current/Global_POVEQ_BGD.pdf.

Bureau of International Labor Reports. 2021. “Child Labor and Forced Labor Reports.” Accessed April 10, 2023. https://www.dol.gov/agencies/ilab/resources/reports/child-labor/bangladesh.

UNICEF. 2019. “Bangladesh Education Fact Sheets 2020.” Accessed April 13, 2023. https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&opi=89978449&url=https://data.unicef.org/wp-content/uploads/2021/05/Bangladesh-Education-Fact-Sheets_V7.pdf&ved=2ahUKEwjd1daA5PmJAxUMHhAIHRXtARkQFnoECBUQAQ&usg=AOvVaw2wM_d5zr0tWGX8NEmxJ3ha.

World Bank. 2018. “National Education Profile.” Accessed April 14, 2023. https://www.epdc.org/sites/default/files/documents/EPDC_NEP_2018_Bangladesh.pdf.

featured image, Women working at a garment factory – Image by Maruf Rahman from Pixabay